صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر

صحيح مسلم
امور حکومت کا بیان
The Book on Government
10. باب الْوَفَاءِ بِبَيْعَةِ الْخُلَفَاءِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ:
10. باب: جس خلیفہ سے پہلے بیعت ہو اسی کو قائم رکھنا چاہیئے۔
Chapter: The obligation of fulfilling oaths of allegiance is owed to the first of two Caliphs
حدیث نمبر: 4775
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص ، ووكيع . ح وحدثني ابو سعيد الاشج ، حدثنا وكيع . ح وحدثنا ابو كريب ، وابن نمير ، قالا: حدثنا ابو معاوية . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وعلي بن خشرم ، قالا: اخبرنا عيسى بن يونس كلهم، عن الاعمش . ح، وحدثنا عثمان بن ابي شيبة واللفظ له، حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنها ستكون بعدي اثرة وامور تنكرونها، قالوا: يا رسول الله، كيف تامر من ادرك منا ذلك؟، قال: تؤدون الحق الذي عليكم وتسالون الله الذي لكم ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ كُلُّهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح، وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهَا سَتَكُونُ بَعْدِي أَثَرَةٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَأْمُرُ مَنْ أَدْرَكَ مِنَّا ذَلِكَ؟، قَالَ: تُؤَدُّونَ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْكُمْ وَتَسْأَلُونَ اللَّهَ الَّذِي لَكُمْ ".
حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اب میرے بعد (کچھ لوگوں سے) ترجیحی سلوک ہو گا اور ایسے کام ہوں گے جنہیں تم برا سمجھو گے۔" صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم میں سے جو شخص ان حالات کا سامنا کرے اس کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: "تم پر (حکام کا) جو حق ہے تم اس کو ادا کرنا اور جو تمہارا حق ہے وہ تم اللہ سے مانگنا
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی پانچ سندوں سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ میرے بعد امراء اپنے آپ کو ترجیح دیں گے اور منکر و ناپسندیدہ باتوں کا ظہور ہو گا۔ صحابہ کرام نے پوچھا، یا رسول اللہ! ہم میں سے جو ان حالات سے دوچار ہو، آپ اس کو کیا حکم دیتے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرنا اور اپنے حقوق کی درخواست اللہ سے کرنا، یعنی اللہ سے دعا کرنا، کہ وہ حکمرانوں کو تمہارے حقوق ادا کرنے کی توفیق اور ہمت دے یا ان کو تبدیل کر دے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1843

   صحيح البخاري7052عبد الله بن مسعودسترون بعدي أثرة وأمورا تنكرونها قالوا فما تأمرنا يا رسول الله قال أدوا إليهم حقهم وسلوا الله حقكم
   صحيح البخاري3603عبد الله بن مسعودستكون أثرة وأمور تنكرونها قالوا يا رسول الله فما تأمرنا قال تؤدون الحق الذي عليكم وتسألون الله الذي لكم
   صحيح مسلم4775عبد الله بن مسعودستكون بعدي أثرة وأمور تنكرونها قالوا يا رسول الله كيف تأمر من أدرك منا ذلك قال تؤدون الحق الذي عليكم وتسألون الله الذي لكم
   جامع الترمذي2190عبد الله بن مسعودسترون بعدي أثرة وأمورا تنكرونها قالوا فما تأمرنا يا رسول الله قال أدوا إليهم حقهم وسلوا الله الذي لكم
   المعجم الصغير للطبراني796عبد الله بن مسعود ستكون بعدي أثرة وأمور تنكرونها ، قالوا : فما تأمر من أدرك ذلك يا رسول الله ؟ ، قال : تؤدون الحق الذى عليكم ، وتسألون الله الذى لكم
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4775 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4775  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں بھی آپﷺ نے رعایا کو اپنے فرائض ادا کرنے کی تلقین کی ہے،
اگر وہ حکمران ان کے مفادات بھی خود لوٹ رہے ہوں تو ان کے حق میں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو رعایا کے حقوق ادا کرنے کی ہمت دے اور رعایا کو ان کے شروفساد سے بچائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4775   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2190  
´ترجیح دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے بعد عنقریب (غلط) ترجیح اور ایسے امور دیکھو گے جنہیں تم برا جانو گے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایسے وقت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تم حکام کا حق ادا کرنا (ان کی اطاعت کرنا) اور اللہ سے اپنا حق مانگو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2190]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی حکام اگر ایسے لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دیں جوقابل ترجیح نہیں ہیں تو تم صبر سے کام لیتے ہوئے ان کی اطاعت کرو اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالہ کرو،
کیوں کہ اللہ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2190   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7052  
7052. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: تم میرے بعد اپنے خلاف ترجیحات اور ایسے امور دیکھو گے جو تمہیں پسند نہیں ہوں گے صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے پوچھا: اللہ کے رسول! (ایسے حالات میں) ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: تم انہیں ان کے حقوق ادا کرتے رہو اور اپنے حقوق کا اللہ سے سوال کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7052]
حدیث حاشیہ:
یعنی اللہ سے دعا کرو کہ اللہ ان کو انصاف اور حق رسانے کی توفیق دے۔
جیسے ثوری کی روایت میں ہے یا اللہ ان کے بدل تم پر دوسرے حاکموں جو عادل اور منصف ہوں مقرر کرے۔
مسلم اور طبرانی کی روایت میں یوں ہے کہ یا رسول اللہ! ہم ان سے لڑیں نہیں۔
آپ نے فرمایا نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔
معلوم ہوا کہ جب مسلمان حاکم نماز پڑھنا بھی چھوڑ دے تو پھر اس سے لڑنا اور اس کا خلاف کرنا درست ہوگیا۔
بے نمازی حاکم کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔
اس پر تمام اہل حدیث کا اتفاق ہے۔
حافظ نے کہا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ جاہلیت والوں کی طرح مرے گا یعنی جیسے جاہلیت والوں کا کوئی امام نہیں ہوتا۔
اسی طرح اس کا بھی نہ ہوگا۔
دوسری روایت میں یوں ہے جو شخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوگیا اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے نکال ڈالی۔
ابن بطال نے کہا اس حدیث سے یہ نکلا حاکم گو ظالم یا فاسق ہو اس سے بغاوت کرنا درست نہیں البتہ اگر صریح کفر اختیار کرے تب اس کی اطاعت جائز نہیں بلکہ جس کو قدرت ہو اس کو اس پر جہاد کرنا واجب ہے۔
آج کل کے بعض ائمہ مساجد لوگوں سے اپنی امامت کی بیعت لے کر بیعت نہ کرنے والوں کو جاہلیت کی موت کا فتویٰ سناتے ہیں اور لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں۔
یہ سب فریب خوردہ ہیں۔
یہاں مراد خلیفہ اسلام ہے، جو صحیح معنوں میں اسلامی طور پر صاحب اقتدار ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7052   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3603  
3603. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: عنقریب دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی اور ایسے امور ہوں گے جنھیں تم ناپسند کروگے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ایسے حالات میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟آپ نے فرمایا: جو فرائض تمہارے ذمے ہیں تم انھیں پوری ذمہ داری سے ادا کرتے رہو اور جو تمہارا حق ہے وہ اللہ سے مانگو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3603]
حدیث حاشیہ:

(أثرة)
سے مراد اموال مشترکہ میں کسی ایک کوترجیح دینا ہے اور حق سے مراد حکمران وقت کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری ہے اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرنا ہے۔

یہ حدیث بھی نبوت کی زبردست دلیل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مستقبل میں اس طرح ہو گا کہ تمھارے حقوق پامال ہوں گے اور دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔
چنانچہ آپ کی پیش گوئی کے مطابق ایسا ہوا۔
ایسے دگرگوں حالات میں شریعت کا حکم ہے کہ امراء و سلاطین سے لڑائی نہ کی جائے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب سے ایسی مدد فرمائے گا جس سے پامالی حقوق کی تلافی ہو گی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3603   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7052  
7052. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: تم میرے بعد اپنے خلاف ترجیحات اور ایسے امور دیکھو گے جو تمہیں پسند نہیں ہوں گے صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے پوچھا: اللہ کے رسول! (ایسے حالات میں) ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: تم انہیں ان کے حقوق ادا کرتے رہو اور اپنے حقوق کا اللہ سے سوال کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7052]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جو حقوق کے معاملے میں اقرباء پروری کریں گے۔
اور انھیں دوسروں پر ترجیح دیں گے اور ان کے حقوق پامال کریں گے۔
اور امور دین کے متعلق ان کا یہ حال ہو گا کہ وہ ایسے کام کریں گے جنھیں دیندار طبقہ پسند نہیں کرے گا۔
ایسے حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ ہم لوگ شرعی واجبات زکاۃ کی ادائیگی اور جہاد کے وقت ان کے ساتھ شمولیت کریں اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کریں اور جہاں تک اپنے حقوق کا تعلق ہے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ انھیں عدل و انصاف کی توفیق دے۔
بہر حال حکومتی سطح پر مالی حقوق کے متعلق یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس میں آ ج ہم سب مبتلا ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم کا معاملہ کرے اور ہمیں صبر کی توفیق دے۔
آمین یا رب العالمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7052   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.