وکیع اور عبدالرحمان (بن مہدی) دونوں نے سفیان سے حدیث بیان کی، انہوں نے فراس سے شعبہ اور ابو عوانہ کی سند کے ساتھ روایت کی، ابن مہدی نے اپنی حدیث میں حد کا ذکر کیا ہے اور وکیع کی حدیث میں ہے: "جس نے اپنے غلام کو طمانچہ مارا۔" انہوں نے حد کا ذکر نہیں کیا
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، ابن مہدی کی روایت میں تو یہ ہے، ”ایسی سزا دی جس کا وہ مستحق نہیں تھا“ اور وکیع کی روایت میں، ”جس نے اپنے غلام کو تھپڑ مارا،“ کا ذکر ہے، سزا اور عقوبت کا ذکر نہیں ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4300
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کو تادیب و توبیخ کی خاطر سزا دی، لیکن وہ سزا تادیب و سرزنش سے زائد ہو گئی، اور غلام کی پشت پر مار کا نشان پڑ گیا، اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے تقویٰ اور احتیاط کی بنا پر یہی مناسب سمجھا کہ اس کا کفارہ اب یہی ہے کہ اس کو آزاد کر دیا جائے، کیونکہ ان میں اس قدر دینداری تھی کہ جب وہ اپنے کسی غلام کو دیکھتے، وہ مسجد میں بہت بیٹھتا ہے، چاہے محض وہ ان کے دکھاوے کے لیے یہ کام کرتا، تو وہ اس کو آزاد کر دیتے تھے۔