وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا عبد الملك بن ابي سليمان ، عن عطاء ، اخبرني جابر بن عبد الله ، قال: تزوجت امراة في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلقيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " يا جابر، تزوجت "، قلت: نعم، قال: " بكر ام ثيب "، قلت: ثيب، قال: " فهلا بكرا تلاعبها "، قلت: يا رسول الله، إن لي اخوات، فخشيت ان تدخل بيني وبينهن، قال: " فذاك إذن إن المراة تنكح على: دينها، ومالها، وجمالها، فعليك بذات الدين تربت يداك ".وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَقِيتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " يَا جَابِرُ، تَزَوَّجْتَ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " بِكْرٌ أَمْ ثَيِّبٌ "، قُلْتُ: ثَيِّبٌ، قَالَ: " فَهَلَّا بِكْرًا تُلَاعِبُهَا "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي أَخَوَاتٍ، فَخَشِيتُ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُنَّ، قَالَ: " فَذَاكَ إِذَنْ إِنَّ الْمَرْأَةَ تُنْكَحُ عَلَى: دِينِهَا، وَمَالِهَا، وَجَمَالِهَا، فَعَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ".
عطاء سے روایت ہے، کہا: مجھے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت سے شادی کی، میری ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ نے پوچھا: "جابر! تم نے نکاح کر لیا ہے؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "کنواری ہے یا دوہاجو (شوہر دیدہ)؟" میں نے عرض کی: دوہاجو۔ آپ نے فرمایا: "باکرہ سے کیوں نہ کی، تم اس سے دل لگی کرتے؟" میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میری بہنیں ہیں تو میں ڈرا کہ وہ میرے اور ان کے درمیان حائل ہو جائے گی، آپ نے فرمایا: "پھر ٹھیک ہے، بلاشبہ کسی عورت سے شادی (میں رغبت) اس کے دین، مال اور خوبصورتی کی وجہ سے کی جاتی ہے، تم دین والی کو چنو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے جابر! شادی کر لی ہے؟“ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کنواری ہے یا بیوہ؟“ میں نے کہا، شوہر دیدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا، اس سے اٹھکیلیاں کرتے؟“ میں نے عرض کیا، میری بہت سی ہمشیرگان ہیں، مجھے اندیشہ پیدا ہوا کہیں وہ میرے اور ان کے درمیان حائل ہی نہ ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب ٹھیک ہے۔“ کیونکہ عورت سے شادی اس کے دین، اس کے مال، اور اس کے حسن و جمال کی خاطر کی جاتی ہے۔ تم دیندار کو لازم پکڑو، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔“