عمرو ناقد اور ابن ابی عمر نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں سالم رضی اللہ عنہ کے گھر آنے کی بنا پر (اپنے شوہر) ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرے میں (تبدیلی) دیکھتی ہوں۔۔ حالانکہ وہ ان کا حلیف بھی ہے۔۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے دودھ پلا دو۔" انہوں نے عرض کی: میں اسے کیسے دودھ پلاؤں؟ جبکہ وہ بڑا (آدمی) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: "میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ بڑا آدمی ہے۔" عمرو نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا: اور وہ (سالم) بدر میں شریک ہوئے تھے۔ اور ابن ابی عمر کی روایت میں ہے: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔" (آپ کا مقصود یہ تھا کہ کسی برتن میں دودھ نکال کر سالم رضی اللہ عنہ کو پلوا دیں
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت سہلہ بنت سہیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں سالم کے گھر آنے سے ابو حذیفہ کے چہرے پر ناگواری محسوس کرتی ہوں حالانکہ وہ اس کا حلیف ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو اپنا دودھ پلا دے۔“ اس نے پوچھا میں اس کو دودھ کیسے پلا دوں؟ وہ تو بڑا آدمی ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر فرمایا: ”مجھے بھی معلوم ہے کہ وہ بڑا آدمی ہے یعنی جوان مرد ہے۔“ عمرو کی روایت میں یہ اضافہ ہے۔ وہ (سالم) بدر میں حاضر ہو چکا ہے اور ابن ابی عمر کی روایت میں تبسم کی جگہ فَضَحِكَ