40. باب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِهَا وَبَيَانِ مَحِلِّهَا وَأَرْجَى أَوْقَاتِ طَلَبِهَا:
40. باب: شب قدر کی فضیلت اور اس کو تلاش کرنے کی ترغیب، اور اس کے تعین کا بیان۔
Chapter: The virtue of Lailat Al-Qadr and the Exhortation to seek it; When it is and the most likely times to seek it
● صحيح البخاري | 813 | سعد بن مالك | اعتكف رسول الله عشر الأول من رمضان واعتكفنا معه فأتاه جبريل فقال إن الذي تطلب أمامك فاعتكف العشر الأوسط فاعتكفنا معه فأتاه جبريل فقال إن الذي تطلب أمامك فقام النبي خطيبا صبيحة عشرين من رمضان فقال من كان اعتكف مع النبي |
● صحيح البخاري | 2027 | سعد بن مالك | يعتكف في العشر الأوسط من رمضان فاعتكف عاما حتى إذا كان ليلة إحدى وعشرين وهي الليلة التي يخرج من صبيحتها من اعتكافه قال من كان اعتكف معي فليعتكف العشر الأواخر وقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها وقد رأيتني أسجد في ماء وطين من صبيحتها فالتمسوها في العشر الأواخر |
● صحيح البخاري | 2016 | سعد بن مالك | التمسوها في العشر الأواخر في الوتر |
● صحيح البخاري | 2040 | سعد بن مالك | من كان اعتكف فليرجع إلى معتكفه فإني رأيت هذه الليلة ورأيتني أسجد في ماء وطين فلما رجع إلى معتكفه وهاجت السماء فمطرنا فوالذي بعثه بالحق لقد هاجت السماء من آخر ذلك اليوم وكان المسجد عريشا فلقد رأيت على أنفه وأرنبته أثر الماء والطين |
● صحيح البخاري | 2018 | سعد بن مالك | كنت أجاور هذه العشر ثم قد بدا لي أن أجاور هذه العشر الأواخر فمن كان اعتكف معي فليثبت في معتكفه وقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها فابتغوها في العشر الأواخر وابتغوها في كل وتر وقد رأيتني أسجد في ماء وطين فاستهلت السماء في تلك الليلة فأمطرت فوكف المسجد في مصلى |
● صحيح البخاري | 2036 | سعد بن مالك | اعتكفنا مع رسول الله العشر الأوسط من رمضان أريت ليلة القدر وإني نسيتها فالتمسوها في العشر الأواخر في وتر فإني رأيت أني أسجد في ماء وطين ومن كان اعتكف مع رسول الله فليرجع فرجع الناس إلى المسجد وما نرى في السماء قزعة قال فجاءت سحابة فمطرت وأقيمت الصلاة فسجد |
● صحيح مسلم | 2769 | سعد بن مالك | يجاور في العشر التي في وسط الشهر فإذا كان من حين تمضي عشرون ليلة ويستقبل إحدى وعشرين يرجع إلى مسكنه ورجع من كان يجاور معه ثم إنه أقام في شهر جاور فيه تلك الليلة التي كان يرجع فيها فخطب الناس فأمرهم بما شاء الله ثم قال إني كنت أجاور هذه العشر ثم بدا لي أن |
● صحيح مسلم | 2771 | سعد بن مالك | اعتكف العشر الأول من رمضان ثم اعتكف العشر الأوسط في قبة تركية على سدتها حصير قال فأخذ الحصير بيده فنحاها في ناحية القبة ثم أطلع رأسه فكلم الناس فدنوا منه فقال إني اعتكفت العشر الأول ألتمس هذه الليلة ثم اعتكفت العشر الأوسط ثم أتيت فقيل لي إنها في العشر الأ |
● صحيح مسلم | 2772 | سعد بن مالك | التمسوها في العشر الأواخر من كل وتر وإني أريت أني أسجد في ماء وطين فمن كان اعتكف مع رسول الله فليرجع |
● صحيح مسلم | 2774 | سعد بن مالك | أبينت لي ليلة القدر وإني خرجت لأخبركم بها فجاء رجلان يحتقان معهما الشيطان فنسيتها فالتمسوها في العشر الأواخر من رمضان التمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة قال قلت يا أبا سعيد إنكم أعلم بالعدد منا قال أجل نحن أحق بذلك منكم قال قلت ما التاسعة والسابعة |
● سنن أبي داود | 1382 | سعد بن مالك | من كان اعتكف معي فليعتكف العشر الأواخر وقد رأيت هذه الليلة ثم أنسيتها وقد رأيتني أسجد من صبيحتها في ماء وطين فالتمسوها في العشر الأواخر والتمسوها في كل وتر |
● سنن أبي داود | 1383 | سعد بن مالك | التمسوها في العشر الأواخر من رمضان والتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة |
● سنن النسائى الصغرى | 1357 | سعد بن مالك | كنت أجاور هذه العشر ثم بدا لي أن أجاور هذه العشر الأواخر فمن كان اعتكف معي فليثبت في معتكفه وقد رأيت هذه الليلة فأنسيتها فالتمسوها في العشر الأواخر في كل وتر وقد رأيتني أسجد في ماء وطين |
● سنن ابن ماجه | 1766 | سعد بن مالك | أريت ليلة القدر فأنسيتها فالتمسوها في العشر الأواخر في الوتر |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1357
´سلام پھیرنے کے بعد پیشانی نہ پوچھنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے) مہینہ کے بیچ کے دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے، جب بیسویں رات گزر جاتی اور اکیسویں کا استقبال کرتے تو آپ اپنے گھر واپس آ جاتے، اور وہ لوگ بھی واپس آ جاتے جو آپ کے ساتھ اعتکاف کرتے تھے، پھر ایک مہینہ ایسا ہوا کہ آپ جس رات گھر واپس آ جاتے تھے اعتکاف ہی میں ٹھہرے رہے، لوگوں کو خطبہ دیا، اور انہیں حکم دیا جو اللہ نے چاہا، پھر فرمایا: ”میں اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا پھر میرے جی میں آیا کہ میں ان آخری دس دنوں میں اعتکاف کروں، تو جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں ہے تو وہ اپنے اعتکاف کی جگہ میں ٹھہرا رہے، میں نے اس رات (لیلۃ القدر) کو دیکھا، پھر وہ مجھے بھلا دی گئی، تم اسے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو، اور میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں“، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اکیسویں رات کو بارش ہوئی تو مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ پر ٹپکنے لگی، چنانچہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ رہے ہیں، اور آپ کا چہرہ مٹی اور پانی سے تر تھا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1357]
1357۔ اردو حاشیہ:
➊ خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃ القدر معین رات میں بتلائی گئی تھی مگر دوسری روایات کے مطابق بعض لوگوں کے جھگڑے کی وجہ سے آپ کے ذہن سے نکل گئی۔ آپ کو صرف نشانی یاد رہ گئی کہ میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ نشانی صرف اس سال کے لیے تھی، نہ کہ ہمیشہ کے لیے کیونکہ آپ نے بعض دوسرے مواقع پر اور نشانیاں بھی بتائی ہیں، نیز یہ رات ہر سال بدلتی رہتی ہے مگر آخری عشرے کی طاق راتوں ہی میں۔
➋ نماز سے فارغ ہونے کے بعد ماتھا وغیرہ پونچھ لینا چاہیے تاکہ سجدے میں اگر کوئی تنکا یا مٹی لگی ہو تو صاف ہو جائے۔ اس طرح ریاکاری کا خطرہ نہیں رہے گا۔ مندرجہ بالا روایات میں تو ابھی آپ نے سلام پھیرا ہی تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1357
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1766
´لیلۃ القدر (شب قدر) کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے شب قدر خواب میں دکھائی گئی لیکن پھر مجھ سے بھلا دی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرہ (دہے) کی طاق راتوں میں ڈھونڈھو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1766]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
شب قدر سال کی سب سے افضل رات ہے اس کی ایک رات کی عبا دت ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے (القدر: 97/3)
(2)
شب قدر کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے اعتکاف کرنا سنت ہے البتہ جو شخص اعتکاف نہ کر سکے اسے بھی راتیں عبادت میں گزارنے کی کو شش کرنی چاہیے
(3)
شب قدر بھلائے جا نے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ با ت یا د نہ رہی کہ اس سال کون سی رات شب قدر ہے ہر سال اسی رات میں ہونا ضروری نہیں۔
(4)
شب قدر آخری عشرے کی طا ق راتو ں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے اس لئے جو شخص دس راتیں عبادت نہ کر سکے اسے یہ پا نچ راتیں ضرور عبادت اور تلاوت و ذکر میں گزارنی چاہیں تاکہ شب قدر کی عظیم نعمت سے محروم نہ رہے
(5)
اگرچہ علمائے کرام نے شب قدر کی بعض علامتیں بیان کی ہیں لیکن ثواب کا دارومدار اس چیز پر نہیں کہ عبادت کرنے والے کو یہ رات معلوم ہوئی یا نہیںں اس لئے اس پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں فلاں فلاں علامت کا احسا س نہیں ہوا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1766
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 813
813. حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے پاس جا کر میں نے عرض کیا کہ تبادلہ خیالات کے لیے آپ اس نخلستان میں ہمارے ساتھ کیوں نہیں جاتے؟ چنانچہ آپ نکلے۔ میں نے عرض کیا کہ شب قدر کے متعلق آپ نے نبی ﷺ سے جو سنا ہے اسے بیان کریں۔ انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے لیکن حضرت جبریل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ جس چیز کے آپ متلاشی ہیں وہ آگے ہے، چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے کا اعتکاف فرمایا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے۔ حضرت جبریل ؑ دوبارہ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ آپ جس چیز کی تلاش میں ہیں وہ آگے ہیں۔ پھر نبی ﷺ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ ارشاد فرمایا اور حکم دیا: ”جو شخص نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ چکا ہے وہ دوبارہ اعتکاف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:813]
حدیث حاشیہ:
کہ میں اس شب پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔
ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ آپ ﷺ نے پیشانی اور ناک پر سجدہ کیا۔
حمیدی نے اس حدیث سے دلیل لی کہ پیشانی اور ناک میں اگر مٹی لگ جائے تو نماز میں نہ پونچھے۔
حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہ ہے کہ سجدے میں ناک کو زمین پر رکھنا ضروری ہے کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے زمین تر ہونے کے باوجود ناک زمین پر لگائی اور کیچڑ کی کچھ پرواہ نہ کی۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 813
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:813
813. حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے پاس جا کر میں نے عرض کیا کہ تبادلہ خیالات کے لیے آپ اس نخلستان میں ہمارے ساتھ کیوں نہیں جاتے؟ چنانچہ آپ نکلے۔ میں نے عرض کیا کہ شب قدر کے متعلق آپ نے نبی ﷺ سے جو سنا ہے اسے بیان کریں۔ انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے لیکن حضرت جبریل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ جس چیز کے آپ متلاشی ہیں وہ آگے ہے، چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے کا اعتکاف فرمایا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے۔ حضرت جبریل ؑ دوبارہ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ آپ جس چیز کی تلاش میں ہیں وہ آگے ہیں۔ پھر نبی ﷺ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ ارشاد فرمایا اور حکم دیا: ”جو شخص نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ چکا ہے وہ دوبارہ اعتکاف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:813]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا یہ طویل حدیث بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ سجدے میں ناک کو زمین پر رکھنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کیچڑ آلود ہونے کے باوجود اپنی ناک کو زمین پر لگایا ہے اور کیچڑ وغیرہ کی کوئی پروا نہیں کی۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ناک پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں پہلے عنوان میں کچھ عموم تھا، اس باب میں عمومیت کو خاص کر دیا گیا ہے۔
گویا آپ نے اشارہ کیا ہے کہ ناک پر سجدہ کرنا امر مؤکد ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے عذر معقول کے باوجود اسے ترک نہیں کیا بلکہ ناک پر سجدہ کرنے کا اہتمام فرمایا۔
جو حضرات اس حدیث کی بنا پر ناک پر سجدہ کرنے کو کافی خیال کرتے ہیں ان کا موقف صحیح نہیں کیونکہ سیاق حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشانی اور ناک پر سجدہ فرمایا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دوران سجدہ میں پیشانی اور ناک کو زمین پر لگانا ضروری ہے۔
اگر اس میں کچھ رخصت ہوتی تو رسول اللہ ﷺ کم از کم اپنی پیشانی اور ناک کو کیچڑ سے آلودہ نہ ہونے دیتے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر دوران نماز میں نمازی کی پیشانی پر زمین کی گردوغبار لگ جائے تو نماز ہی میں اسے صاف کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 386/2) (3)
اس حدیث کے متعلقہ دیگر مباحث کو ہم کتاب فضل لیلة القدر (حدیث: 2016)
میں بیان کریں گے۔
إن شاءاللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 813
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2016
2016. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا تو آپ بیسویں تاریخ کی صبح (اعتکاف گاہ سے) باہر تشریف لائے اور ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ”مجھے خواب میں شب قدر دکھائی گئی تھی۔ مگر مجھے بھلادی گئی۔“ یا فرمایا: ”میں ازخود بھول گیا۔ لہٰذا اب تم اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے خواب میں ایسا دیکھا گویا کیچڑمیں سجدہ کر رہا ہوں۔ لہٰذا جس شخص نے میرے ساتھ اعتکاف کیا تھا وہ واپس لوٹ آئے (اور اعتکاف کرے)۔“ چنانچہ ہم واپس آگئے اور اس وقت آسمان پر بادل کا نشان تک نہ تھا لیکن اچانک بادل امڈ آیا اور اتنا برسا کہ مسجد کی چھت ٹپکنے لگی اور وہ کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کھڑی کی گئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو کیچڑ میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی پیشانی پر مٹی کے نشانات دیکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2016]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شب قدر کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، آپ کے پاس جبرئیل ؑ آئے اور کہا:
آپ جس کی تلاش میں ہیں وہ آگے ہے، پھر آپ نے دوسرے عشرے کا اعتکاف کیا تو دوبارہ حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس آ گئے اور کہا:
آپ جس کے متلاشی ہیں وہ اس کے آگے ہے، آخر کار آپ نے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا پروگرام بنایا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 813) (2)
صحیح بخاری کی مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بیسویں تاریخ کی صبح کو برآمد ہوئے اور اسی وقت آپ نے خطبہ دیا، اس کے بعد اکیسویں رات سے اپنے اعتکاف کا آغاز کیا لیکن مؤطا امام مالک کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اکیسویں شب کی صبح کو باہر تشریف لائے اور خطبہ دیا، پھر آپ نے بائیسویں رات کو آخری عشرے کے اعتکاف کا آغاز کیا۔
(الموطأ للإمام مالك، الاعتکاف، حدیث: 715)
امام مالک کی روایت مرجوح ہے کیونکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ جب بیسویں رات گزر گئی اور اکیسویں کی آمد آمد تھی تو اس وقت آپ اپنی اعتکاف گاہ میں واپس آ گئے، اس موقف کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو شخص میرے ہمراہ معتکف تھا اسے چاہیے کہ وہ لوٹ آئے اور میرے ساتھ آخری عشرے کا اعتکاف کرے۔
“ اور آخری عشرہ اکیسویں رات سے شروع ہوتا ہے۔
اس بنا پر امام مالک کی روایت مرجوح ہے۔
(فتح الباري: 327/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2016
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2018
2018. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔ جب بیسویں رات گزرجاتی اور اکیسویں رات کی آمد ہوتی تو اپنے گھر واپس آجاتے اور وہ لوگ بھی اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے جو آپ کےساتھ اعتکاف کرتے تھے۔ پھر ایک رمضان میں جب آپ اعتکاف سے تھے تو اس رات بھی مسجد میں مقیم رہے جس میں آپ کی عادت گھر واپس آنے کی تھی۔ آپ نے وہاں لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق انھیں کچھ احکام بتائے، پھر فرمایا: ”میں اس دوسرے عشرے میں اعتکاف کرتا تھا لیکن اب مجھ پر واضح ہوا ہے کہ میں آخری عشرے میں اعتکاف کروں، اس لیے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں رہا ہے وہ اپنی اعتکاف گاہ میں رہے اور مجھے اس رات ”شب قدر“ دکھائی گئی تھی پھر وہ بھلادی گئی اسے تم آخری عشرے میں اور اس کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کررہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2018]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق اس سال اکیسویں تاریخ کو شب قدر تھی۔
(2)
دیگر احادیث سے ستائیسویں رات کے متعلق پتہ چلتا ہے کہ وہ شب قدر ہے۔
عین ممکن ہے کہ جس سال صحابۂ کرام ؓ کو اس رات کا ادراک ہوا اس سال وہی شب قدر تھی، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہمیشہ وہی رات شب قدر ہو گی۔
اس رات کی تعیین کے متعلق علمائے امت کے بہت سے اقوال ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں 46 اقوال نقل فرمائے ہیں۔
آخر میں اپنا فیصلہ بایں الفاظ دیا ہے:
ان سب میں ترجیح اس قول کو ہے کہ یہ مبارک رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے اور یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے۔
شوافع نے اکیسویں رات کو شب قدر قرار دیا ہے اور جمہور ستائیسویں رات کو ترجیح دیتے ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اسے ہر سال کے لیے کسی خاص تاریخ کے ساتھ متعین نہیں کیا جا سکتا، نیز یہ ایک پوشیدہ رات ہے اور اس رات کے مخفی ہونے میں حکمت یہ ہے کہ اس کی تلاش کے لیے کوشش جاری رکھی جائے۔
اگر اسے معین کر دیا جاتا تو پھر اسی رات پر ہی اکتفا کر لیا جاتا۔
(فتح الباري: 338/4)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2018
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2027
2027. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے۔ آپ نے ایک سال اعتکاف کیا، جب اکیسویں رات آئی اور یہ وہ رات ہے جس کی صبح آپ اعتکاف سے باہر ہوتے تھے، تو آپ نے فرمایا: ”جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرہ بھی اعتکاف میں گزارے کیونکہ مجھے اس رات شب قدر دکھائی گئی پھر اسے میرے ذہن سے محور کردیا گیا، چنانچہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اکیسویں کی صبح پانی اور مٹی میں سجدہ کرتا ہوں۔ اس لیے تم اسے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ خاص طور پر ہر طاق رات میں تلاش کرو۔“ واقعہ یہ ہے کہ اس رات بادل برسا اور مسجد چونکہ کھجور کی شاخوں سے تھی، اس لیے وہ بھی بہہ پڑی۔ میری آنکھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اکیسویں رات کی صبح آپ کی پیشانی پر پانی اور مٹی کا نشان تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2027]
حدیث حاشیہ:
شب قدر کی تعیین کے متعلق بہت اختلاف ہے۔
اس حدیث میں اکیسویں رات کا ذکر ہے۔
ممکن ہے اس سال اکیسویں رات کو شب قدر ہو لیکن ہمیشہ کے لیے اکیسویں رات کو شب قدر کا آنا اس سے ثابت نہیں ہوتا۔
بہرحال آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ نے حتمی اور یقینی طور پر اس رات کا تعین نہیں فرمایا۔
بہرحال امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے صرف اتنا مقصد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف کیا تھا اور حدیث میں مذکور تمام واقعات مسجد میں پیش آئے تھے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2027
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2036
2036. حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے دریافت کیا: کیا آپ نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو شب قدر کا ذکر کرتے سنا ہے؟انھوں نے فرمایا: ہاں، ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا۔ ہم بیسویں رمضان کی صبح کو اعتکاف گاہ سے باہر نکلے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بیسویں کی صبح خطاب کرتے ہوئے فرمایا؛ ”مجھے شب قدر دکھائی گئی، پھر اسے بھلا دیاگیا، اس لیے تم اسے آخری عشرے کی طاق ر اتوں میں تلاش کرو۔ چونکہ میں نے(خواب میں) دیکھا ہے کہ پانی اور مٹی میں سجدہ کررہا ہوں، اس لیے جس نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اعتکاف کیا تھا وہ واپس اپنے معتکف میں آجائے۔“ لوگ یہ سن کر مسجد میں واپس آگئے۔ ہم نے آسمان پر ذرہ بھر بھی بادل نہ دیکھے تھے کہ اچانک تھوڑا سا بادل آیا اور وہ خوب برسا۔ اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے کیچڑ اور پانی میں سجدہ کی حتیٰ کہ میں نے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2036]
حدیث حاشیہ:
امام مالک نے جب اس روایت کو بیان کیا ہے تو بایں الفاظ ذکر کیا ہے:
ہم ایک سال رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اعتکاف میں تھے، جب اکیسویں رات آئی جس کی صبح کو آپ اعتکاف گاہ سے نکلے تھے۔
(صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث: 2018)
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں:
اکیسویں رات کی صبح سے مراد بیسویں دن کی صبح ہے، یعنی بیسویں روزے کی صبح جس کے بعد آنے والی رات اکیسویں تھی۔
بعض اوقات کسی چیز کے ماقبل کو اس کی طرف مضاف کر دیا جاتا ہے۔
کلام عرب میں یہ اسلوب بھی مستعمل ہے۔
(فتح الباري: 356/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2036
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2040
2040. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نے (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا۔ جب بیسویں کی صبح ہوئی تو ہم نے اپنا سامان وغیرہ (گھروں میں) منتقل کرلیا۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”جواعتکاف میں تھا وہ اپنی جائے اعتکاف میں واپس چلا جائے۔ اس لیے کہ میں نے رات کو خواب دیکھا ہے۔ اس خواب میں خود پانی اورکیچڑ میں سجدہ کرتا ہوں۔“ جب آپ ﷺ اپنے معتکف میں واپس چلے گئے۔ تو ایک بادل نمودار ہوا اور خوب بارش ہوئی۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے!اسی دن کے آخری حصے میں بادل آیا۔ چونکہ مسجد کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ہوئی تھی اس لیے میں نے آپ کی ناک اور پیشانی پر پانی اور کیچڑ کے نشانات دیکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2040]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم میں یہ حدیث ان الفاظ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”میں نے اس رات کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا، پھر جب بھی اعتکاف کے لیے آیا تو مجھ سے کہا گیا کہ وہ رات تو آخری عشرے میں ہے، لہذا تم میں سے جو شخص اعتکاف کرنا چاہے وہ (آخری عشرے میں)
اعتکاف کرے۔
“ اس کے بعد لوگوں نے آپ کے ساتھ اعتکاف کیا۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2769(1167) (2)
زیادہ سے زیادہ یا کم از کم مدتِ اعتکاف کی کوئی حد نہیں۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ رات کے اعتکاف کے ساتھ دن کا اعتکاف کرنا بھی ضروری ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پابندی ضروری نہیں، تاہم جو یہ کہا جاتا ہے کہ نماز پڑھنے کے لیے آئیں تو اعتکاف کی نیت کر لیں، اس کی کوئی اصل نہیں۔
یہ بے بنیاد بات ہے۔
(3)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے:
جس نے رات کا اعتکاف کرنا ہے وہ غروب آفتاب سے پہلے اعتکاف شروع کرے اور طلوع فجر تک اسے جاری رکھے۔
جس نے صرف دن کا اعتکاف کرنا ہے وہ طلوع فجر سے پہلے اس کا آغاز کرے اور غروب آفتاب کے بعد اسے ختم کرے اور جس نے رات اور دن دونوں کا اعتکاف کرنا ہو اسے چاہیے کہ وہ غروب آفتاب سے پہلے اس کا آغاز کرے اور اگلے دن غروب آفتاب کے بعد وہاں سے نکلے۔
(فتح الباري: 358/4)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2040
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،صحیح بخاری2027
... ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے ... [صحيح بخاري 276]
تمام مساجد میں اعتکاف جائز ہے
محدث العصر الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا کہ ”کیا تین مساجد: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ دوسری مساجد میں اعتکاف بیٹھنا جائز ہے؟ “
الجواب للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
«وَلَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ فِي الْمَسٰجِدِ»
اور اپنی بیویوں سے اس وقت جماع نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہو۔
[البقرة: 187]
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہر مسجد میں اعتکاف جائز ہے۔ جمہور علماء نے اس آیت کریمہ سے استدلال کر کے ہر مسجد میں اعتکاف کو جائز قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [شرح السنة للبغوي ج 6 ص 394 مرعاة المفاتيح ج 7 ص 165]
اس کے مقابلے میں بعض لوگوں کا یہ مؤقف ہے کہ صرف تین مساجد میں ہی اعتکاف جائز ہے: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ!
ان کے نزدیک دیگر مساجد میں اعتکاف جائز نہیں ہے۔
یہ لوگ اپنے دعویٰ کی تائید میں ایک روایت پیش کرتے ہیں:
«سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَامِعِ بْنِ أَبِيْ رَاشِدٍ، عَنْ أَبِيْ وَائِلٍ قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ لِعَبْدِاللهِ: عُكُوفٌ بَيْنَ دَارِكَ وَدَارِ أَبِيْ مُوسَي لَاتُغَيِّرُ، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: لَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَةِ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: تین مساجد کے علاوہ (کسی مسجد میں) اعتکاف نہیں ہے۔
[المعجم للاسماعيلي 2/3/ 720 ح 336 واللفظ له، سير اعلام النبلاء للذهبي 15/ 81، وقال: ”صحيح غريب عال“ السنن الكبريٰ للبيهقي 4/ 316، مشكل الآثار 4/ 20، المحليٰ لا بن حزم 5/ 194، مسئله: 633]
یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔
اس کی تمام اسانید میں سفیان بن عیینہ راوی موجود ہیں جو کہ عن سے روایت کرتے ہیں۔
کسی ایک سند میں بھی ان کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ثقہ حافظ اور مشہور مدلس تھے۔
حافظ ابن حبان لکھتے ہیں:
«وهذا ليس فى الدنيا إلا لسفيان بن عيينة وحده فإنه كان يدلس ولا يدلس إلا عن ثقة متقن»
دنیا میں اس کی مثال صرف سفیان بن عیینہ ہی اکیلے کی ہے، کیونکہ آپ تدلیس کرتے تھے مگر ثقہ متقن کے علاوہ کسی دوسرے سے تدلیس نہیں کرتے تھے۔
[الاحسان بترتيب صحيح ابن حبان ج 1 ص 90، دوسرا نسخه ج 1 ص 161]
امام ابن حبان کے شاگرد امام دارقطنی وغیرہ کا بھی یہی خیال ہے۔ دیکھئے: [سوالات الحاكم للدارقطني ص 175]
امام سفیان بن عیینہ درج ذیل ثقات سے بھی تدلیس کرتے تھے:
1) علی بن المدینی،
2) ابو عاصم، اور
3) ابن جریج
[الكفاية فى علم الروايه للخطيب ص 362، نعمت الاثاثه لتخصيص الاعتكاف بالمساجد الثلاثه ص 79]
ایک دفعہ سفیان (بن عیینہ) نے (امام) زہری سے حدیث بیان کی بعد میں پوچھنے والوں کو بتایا کہ میں نے یہ زہری سے نہیں سنی اور نہ اس سے سنی ہے جس نے زہری سے سنا ہے۔
«لَمْ أَسْمَعْهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ وَلَا مِمَّنْ سَمِعَهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِيْ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ»
مجھے عبدالرزاق نے عن معمر عن الزہری یہ حدیث سنائی ہے۔
[علوم الحديث للحاكم ص 105، الكفايه ص 359، مقدمه ابن الصلاح ص 95، 96، اختصار علوم الحديث ص 51، تدريب الراوي ج 1 ص 224، فتح المغيث ج 1 ص 183]
تنبیہ: اس روایت کی سند ابراہیم بن محمد السکونی السکری کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ایک دفعہ آپ نے عمرو بن دینار (ثقہ) سے ایک حدیث بیان کی۔ پوچھنے پر بتایا کہ:
«حَدَّثَنِيْ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ مَخْلَدٍ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ»
مجھے علی بن مدینی نے عن الضحاک بن مخلد عن ابن جریج عن عمرو بن دینار کی سند سے یہ حدیث سنائی۔
[فتح المغيث 1 ص 184]
[یہ روایت صحیح سند کے ساتھ الکفایہ ص 359۔ 360 میں مطولاً موجود ہے۔]
حدیث اور اصول حدیث کے عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ یہ سند ابن جریج کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن جریج کا ضعفاء سے تدلیس کرنا بہت زیادہ مشہور ہے۔ دیکھئے: [الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين ص 55، 56]
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابن عیینہ جن ثقہ شیوخ سے تدلیس کرتے تھے ان میں سے بعض بذاتِ خود مدلس تھے مثلاً ابن جریج وغیرہ۔ ابن عیینہ کے اساتذہ میں امام زہری، محمد بن عجلان اور سفیان ثوری وغیرہم تدلیس کرتے تھے لہٰذا امام سفیان بن عیینہ کا عنعنہ مشکوک ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ آپ صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرتے تھے، محل نظر ہے۔
سفیان (بن عیینہ) نے محمد بن اسحاق کے بارے میں امام زہری کا قول نقل کیا کہ:
«أما إِنَّه لَايزَال فِي النَّاس علم مَا بقي هَذَا» «»
لوگوں میں اس وقت تک علم باقی رہے گا جب تک یہ (محمد بن اسحاق بن یسار) زندہ ہیں۔
[تاريخ يحييٰ بن معين ج 1 ص 504، دوسرانسخه 157 ت 979 من زوائد عباس الدوري، الكامل ابن عدي ج 6 ص 2119، ميزان الاعتدال ج 3 ص 472]
اس روایت میں سفیان کے سماع کی تصریح نہیں ہے۔
سفیان نے یہ قول ابوبکر الہذلی سے سنا تھا۔ [الجرح والتعديل ج 7 ص 191]
لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ سفیان بن عیینہ نے الہذلی سے تدلیس کی ہے۔
یہ الہذلی متروک الحدیث ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 397]
سفیان بن عیینہ نے حسن بن عمارہ (متروک / تقریب التہذیب ص 71) سے بھی تدلیس کی ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ [ص 151]
خلاصہ یہ کہ امام سفیان بن عیینہ کا صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرنا محل نظر ہے، یہ اکثریتی قاعدہ تو ہو سکتا ہے کلی قاعدہ نہیں ہو سکتا۔
محدثینِ کرام نے ثقہ تابعی کی مرسل روایت اس خدشہ کی وجہ سے رد کر دی ہے کہ ہو سکتا ہے، اس نے غیر صحابی سے سنا ہو۔ اگر غیر صحابی (یعنی تابعی وغیرہ) سے سنا ہے تو ہو سکتا ہے کہ راوی ثقہ ہو یا ضعیف، لہٰذا مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔ بعینہ اسی طرح ”لا اعتکاف“ والی روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:
1) ہو سکتا ہے کہ سفیان عیینہ نے یہ روایت ثقہ سے سنی تھی یا غیر ثقہ سے؟ اگر غیر ثقہ سے سنی ہے تو مردود ہے۔
2) اگر ثقہ سے سنی تھی تو ہو سکتا ہے یہ ثقہ بذات خود مدلس ہوں، جیسا کہ اوپر واضح کر دیا گیا ہے۔ جب سفیان کا استاد بذات خود مدلس ہے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس نے ضرور بالضروریہ روایت اپنے استاد سے ہی سنی تھی؟ جب اس کے سماع کی تصریح معلوم کرنا ناممکن ہے تو یہ خدشہ قوی ہے کہ اس کی بیان کردہ روایت اس کے ضعیف استاد کی وجہ سے ضعیف ہو۔ لہٰذا اس روایت کو شیخ ابو عمر عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کا حافظ ذہبی کی پیروی کرتے ہوئے، «صحيح عندي» کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اصول حدیث کے سراسر خلاف ہے۔
جناب نورستانی صاحب اور جناب نجم اللہ سلفی صاحب حفظہما اللہ کی طرف راقم الحروف نے اردو زبان میں ایک خط لکھا تھا جس کا جواب کافی عرصے کے بعد عربی زبان وغیرہ میں ملا۔
اس جواب کے ملتے ہی راقم الحروف نے اس کا اردو میں جواب لکھ کر جناب نورستانی صاحب، جناب نجم اللہ صاحب اور بذریعہ خط کتابت جناب ڈاکٹر شجاع اللہ صاحب (لاہوری) کی خدمت میں ارسال کر دیا تھا۔
بعد میں شیخ نورستانی صاحب کی کتاب ”نعمۃ الأ ثاثۃ لتخصیص الإعتکاف بالمساجد الثلاثۃ“ ملی جس میں میرے پہلے خط کو ٹوٹی پھوٹی عربی میں ترجمہ کر کے مع جواب شائع کر دیا اور میرا دوسرا (تازہ) خط اس کتاب سے غائب ہے۔
میں نے لکھا تھا:
«بسم الله الرحمان الرحيم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، اما بعد:»
جناب نورستانی صاحب اور جناب نجم اللہ صاحب کے نام!
آپ کا جواب ملا ہے، اس سلسلے میں چند معروضات پیشِ خدمت ہیں:
1- آپ اپنی مستدل سند میں امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے سماع کی تصریح ثابت نہیں کر سکے ہیں اور نہ کوئی متابعت پیش کر سکے ہیں۔
2- امام ابن عیینہ رحمہ اللہ ثقہ مدلسین مثلاً امام ابن جریج رحمہ اللہ وغیرہ سے بھی تدلیس کرتے تھے لہٰذا ان کا عنعنہ مشکوک ہے۔ اس کا آپ دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
3- ابوبکر الہذلی کے سلسلے میں آپ نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام ابن عیینہ رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ کا قول الہذلی سے بھی سنا ہے اور امام زہری سے بھی۔ حالانکہ الجرح والتعدیل یا کسی کتاب سے یہ ثابت نہیں کہ انھوں نے خود یہ قول امام زہری سے سنا ہے۔
الہذلی کے قصہ میں درج ذیل باتیں مدنظر رکھیں:
1) سفیان نے محمد بن اسحاق کو زہری کے پاس دیکھا۔
2) ابن اسحاق نے زہری سے ان کے دربان کی شکایت کی۔
3) زہری نے دربان کو بلا کر سمجھایا۔
4) الہذلی نے زہری کا قول سفیان کو سنایا: ”لا یزال بالمدینۃ علم…“ إلخ
ان میں اول الذکر تین شقوں میں سفیان کا سماع ہے آخری شق میں نہیں، لہٰذا بعض راویوں کے اختصار سے آپ کا استدلال صحیح نہیں ہے۔
ابو قلابہ الرقاشی سے قطع نظر ”اعلم بغزا“ والی روایت اور ہے، «لايزال بالمدينه لايزال بالمدينه» والی اور، اسے المزید فی متصل الاسانید سے سمجھنا صحیح نہیں ہے۔
آپ میرے سابق خط کے المشار الیہا صفحات کا دوبارہ مطالعہ کریں … … … … …
ابو قلابہ عبدالملک بن محمد الرقاشی کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ حسن الحدیث تھے کیونکہ جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے۔ روایتِ مذکورہ میں محمد بن جعفر بن یزید اور محمد بن ابراہیم المزنی کی توثیق مطلوب ہے۔
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کی تدلیس کے بارے میں چند مزید فوائد پیشِ خدمت ہیں:
1- ابو حاتم الرازی نے سفیان بن عیینہ عن ابن ابی عروبہ والی ایک روایت کے بارے میں فرمایا: اگر یہ (روایت) صحیح ہوتی تو ابن ابی عروبہ کی کتابوں میں ہوتی اور ابن عیینہ نے اس حدیث میں سماع کی تصریح نہیں کی اور یہ بات اسے ضعیف قرار دے رہی ہے۔ [علل الحديث 1/ 32 ح 60، الفتح المبين ص 41]
2- ابن ترکمانی حنفی نے کہا: ”ثم إن ابن عیینۃ مدلس وقد عنعن فی السند“ پھر اس میں ابن عیینہ مدلس ہیں اور انھوں نے عن سے سند بیان کی ہے۔ [الجوهر النقي 2/ 138]
نیز دیکھئے: [المستدرك للحاكم 2/ 539 ح 3985]
4- جناب نجم اللہ صاحب کا صحیحین پر طعن کرنا کہ ”اور شروط سماع نہ ہوں تو بھی روایت مردود ہو گی“ غلط ومردود ہے۔
صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے بلکہ ان کی صحت پر اجماع ہے۔ صرف یہی دلیل اس بات کے لئے کافی ہے کہ صحیحین میں مدلسین کی روایات سماع یا متابعت پر محمول ہیں۔
5- امام سفیان بن عیینہ کی معنعن روایت بلحاظِ سند ضعیف و بلحاظ متن منکر ہے لہٰذا اسے «صحيح عندي» کہنا غیر صحیح ہے۔
6- آپ دونوں حضرات سے درخواست ہے کہ اس ضعیف و معلول روایت کو لوگوں میں پھیلا کر اُمت میں فتنہ پیدا نہ کریں۔ وما علینا إلا البلاغ، زبیر علی زئی، 99۔ 10۔ 14“
اس خط کا ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔
مختصر عرض ہے کہ سفیان بن عیینہ کی بیان کردہ روایت: «لَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَةِ» بلحاظ سند ضعیف ہے۔
اس میں اور بھی بہت سی علتیں ہیں۔
مثلاً اس کے متن میں اختلاف وتعارض ہے، موقوف و مرفوع ہونے میں بھی اختلاف ہے۔
اس اختلاف کی بنیاد وہ نامعلوم شخص ہے جس نے سفیان بن عیینہ کو یہ حدیث سنائی ہے۔ جمہور علماءِ اسلام کے بعض اعتراضات ”نعمت الاثاثہ“ نامی کتاب میں بھی موجود ہیں۔ فاضل مولف نے ان اعتراضات کے ناکام جوابات دینے کی کوشش کی ہے لیکن حق وہی ہے جو جمہور علماء اسلام نے قرآن مجید کی آیت کریمہ: ﴿وَاَنْتُمْ عَاكِفُوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ﴾ سے سمجھا ہے۔
یہاں بطور نکتہ عرض ہے کہ ”المساجد“ کی تخصیص تین مساجد: (مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ) کے ساتھ کرنا تاریخی طور پر بھی غلط ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کا مسجد اقصیٰ میں اعتکاف کرنا کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے، بلکہ بیت المقدس (جہاں مسجد اقصیٰ موجود ہے) اس زمانے میں صلیبی پولسی عیسائیوں کے قبضہ میں تھا۔ اسے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے 15ھ میں فتح کیا۔ دیکھئے: [البدايه والنهايه ج 7 ص 56 وغيره]
لہٰذا اس آیت کریمہ کے شانِ نزول میں مسجد حرام، مسجد نبوی کے ساتھ وہ تمام مساجد شامل ہیں جو کہ عہد نبوی میں موجود تھیں۔ مساجد کا لفظ کم از کم تین (یا اس سے زیادہ) مسجدوں پر مشتمل ہے۔
شان نزول کے وقت مسجد اقصیٰ کے خروج سے یہ خود بخود ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام مساجد بشمول مساجد ثلاثہ میں اعتکاف میں بیٹھنا جائز ہے۔ [شهادت، جنوري 2000ء]
«لا اعتكاف» والی روایت ضعیف ہے:
سوال: اعتکاف کے سلسلے میں آپ کی تحقیق کیا ہے؟ (ایک سائل)
الجواب:
امام ابو حاتم رازی نے ”لااعتکاف“ والی روایت کے راوی امام سفیان بن عیینہ کی ایک حدیث کو اس وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس میں سفیان مذکور نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ [علل الحديث ج 1 ص 32 ح 60 والمخطوطه 18، وفوائد فى كتاب العلل بقلم المعلمي ص 29]
شیخ ناصر بن حمد الفہد نے لکھا ہے:
«وهذا يفيد أن ابن عيينة أحيانًا يدلس عن الضعفاء»
اور یہ اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ ابن عیینہ بعض اوقات ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے تھے۔
[منهج المتقد مين فى التدليس ص 36]
سعودی عرب کے مشہور شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن السعد حفظہ اللہ نے اس کتاب کی تقریظ لکھی ہے۔
ان دو تازہ حوالوں سے بھی یہی ثابت ہوا کہ «لَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَةِ» (تین مسجدوں کے سوا اعتکاف نہیں ہے) والی حدیث ضعیف ہے۔ [شهادت، جنوري 2003ء]
……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 2 صفحہ 147 تا 154) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 147