ہشا م نے یحییٰ سے اور انھوں نے ابو سلمہ سے روایت کی، کہا: ہم نے آپس میں لیلۃالقدر کے بارے میں بات چیت کی، پھر میں ابو خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا وہ میرے دوست تھے، میں نے کہا: کیا آپ ہمارے ساتھ نخلستان میں نہیں چلیں گے؟وہ نکلے اور ان (کے کندھوں) پر دھاری دار چادر تھی، میں نے ان سے پوچھا: (کیا) آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃ القدر کا ذکر کرتے ہو ئے سنا، تھا؟ انھوں نے کہا: ہاںہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضا ن کے درمیانے عشرے میں اعتکاف کیا ہم بیسویں (رات) کی صبح کو (اعتکاف سے) نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: " مجھے لیلۃ القدر دکھا ئی گئی اور اب میں بھول گیا ہوں۔۔۔مجھے بھلا دی گئی ہے۔۔۔اس لیے تم اس کو آخریعشرے کی ہر طاق رات میں تلاش کرو اور میں نے دیکھا کہ میں (اس رات) پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ تو جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ واپس (اعتکاف میں) چلا جا ئے۔کہا: ہم واپس ہو گئے اور ہمیں آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا کہا: ایک بدلی آئی ہم پر بارش ہو ئی یہاں تک کہ مسجد کی چھت بہ پڑی۔وہ کھجور کی شا خوں سے بنی ہو ئی تھی اور نماز کھڑی کی گئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہے تھے کہا: یہاں تک کہ میں نے آپ کی پیشانی پر مٹی کا نشان بھی دیکھا۔
ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آپس میں شب قدر کا تذکرہ کیا پھر میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا وہ میرے دوست تھے تو میں نے ان سے کہا کیا آپ ہمارے ساتھ نخلستان میں جائیں گے؟ وہ پانچ گزی چادر اوڑھے ہوئے نکلے (اگر لفظ خمیسۃ ہو تو معنی پانچ گزی چادر ہو گا اگر خمیصۃ ہو تو معنی گرم منقش چادر ہو گا)میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کا ذکر سنا ہے تو انھوں نے کہا ہاں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے درمیانی دھاکہ کا اعتکاف کیا تو ہم نے بیسویں کی صبح نکلنے کی تیاری کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا کہ"مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی اور میں بھول گیا ہوں یا بھلا دیا گیا ہوا سے آخری عشرے کی ہر طاق رات میں تلاش کرو اور میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں(اس رات)پانی اور مٹی میں سجدہ کررہا ہوں تو جس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ واپس آجائیں یعنی اپنا سامان واپس منگوالیے اور معتکف میں رہے۔ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ہم(ذہنی طور پر) واپس لوٹ آئے (اور سامان منگوالیا اور خیموں میں لوٹ گئے)اور ہمیں آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں بادل امنڈآئے اور ہم پر مینہ برسا حتی کہ چھت ٹپک پڑی کیونکہ وہ کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی پھر نماز کھڑی کی گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہے تھے حتی کہ میں نے آپ کی پیشانی پر مٹی کا نشان دیکھا۔حدیث حاشیہ: Abu Salama reported: 'We discussed amongst ourselves Lailat-ul-Qadr. I came to Abu Sa'id al-Khudri (RA) who was a friend of mine and said to him: Would you not go with us to the garden of date trees? He went out with a cloak over him. I said to him: Did you hear the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) making mention of Lailat-ul-Qadr? He said: Yes, (and added) we were observing i'tikaf with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) in the middle ten days of Ramadan, and came out on the morning of the twentieth and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) addressed us and said: I was shown Lailat-ul-Qadr, but I forgot (the exact night) or I was caused to forget it, so seek it in the last ten odd (nights), and I was shown that I was prostrating in water and clay. So he who wanted to observe i'tikaf with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) should return (to the place of i'tikaf). He (Abu Sa'id al-Khudri) said: And we returned and did not find any patch of cloud in the sky. Then the cloud gathered and there was (so heavy) a downpour that the roof of the mosque which was made of the branches of date-palms began to drip. Then there was prayer and I saw the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) prostrating in water and clay till I saw the traces of clay on his forehead.حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: معمر اور اوزاعی دونوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی سند کے ساتھ اس (سابقہ حدیث) کے ہم معنی روایت کی۔ اور ان دونوں کی حدیث میں ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے (فارغ ہو کر) پلٹے تو میں نے آپ کو اس ھال میں دیکھا کہ آپ کی پیشانی اور ناک کے کنا رے پر مٹی کا نشان تھا۔حدیث حاشیہ: ہم سے عمارہ بن غزیہ انصاری نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے محمد بن ابرا ہیم سے سنا وہ ابو سلمہ سے حدیث بیان کر رہے تھے،انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ترکی خیمے کے اندر جس کے دروازے پر چٹائی تھی،رمضا ن کے پہلے عشرے میں اعتکا ف کیا، پھر درمیانے عشرے میں اعتکاف کیا۔کہا: تو آپ نے چتا ئی کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر خیمے کے ایک کونے میں کیا،پھر اپنا سر مبا رک خیمے سے باہر نکا ل کر لو گوں سے گفتگو فر ما ئی،لوگ آپ کے قریب ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:" میں نے اس شب (قدر) کوتلاش کرنے کے لیے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر میں نے درمیانے عشرے کا اتکاف کیا، پھر میرے پاس (بخاری حدیث:813میں ہے:جبریل ؑ کی آمد ہو ئی تو مجھ سے کہا گیا: وہ آخری دس راتوں میں ہے تو اب تم میں سے جو اعتکاف کرنا چا ہے وہ اعتکاف کر لے، "لوگوں نے آپ کے ساتھ اعتکاف کیا۔ آپ نے فر مایا:"اور مجھے وہ ایک طاق رات دکھا ئی گئی اور یہ کہ میں اس(رات) کی صبح مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیسویں رات کی صبح کی، اور آپ نے (اس میں) صبح تک قیام کیا تھا پھر بارش ہو ئی تو مسجد (کی چھت)ٹپک پڑی،میں نے مٹی اور پانی دیکھا اس کے بعد جب آپ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو آپ کی پیشانی اور ناک کے کنارے دونوں میں مٹی اور پانی (کے نشانات) موجود تھے اور یہ آخری عشرے میں اکیسویں کی رات تھی۔حدیث حاشیہ: ہشا م نے یحییٰ سے اور انھوں نے ابو سلمہ سے روایت کی،کہا: ہم نے آپس میں لیلۃالقدر کے بارے میں بات چیت کی، پھر میں ابو خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا وہ میرے دوست تھے،میں نے کہا: کیا آپ ہمارے ساتھ نخلستان میں نہیں چلیں گے؟وہ نکلے اور ان (کے کندھوں) پر دھاری دار چادر تھی،میں نے ان سے پوچھا:(کیا) آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃ القدر کا ذکر کرتے ہو ئے سنا،تھا؟ انھوں نے کہا:ہاںہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضا ن کے درمیانے عشرے میں اعتکاف کیا ہم بیسویں (رات) کی صبح کو (اعتکاف سے) نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا:" مجھے لیلۃ القدر دکھا ئی گئی اور اب میں بھول گیا ہوں۔۔۔مجھے بھلا دی گئی ہے۔۔۔اس لیے تم اس کو آخریعشرے کی ہر طاق رات میں تلاش کرو اور میں نے دیکھا کہ میں (اس رات) پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ تو جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ واپس (اعتکاف میں) چلا جا ئے۔کہا: ہم واپس ہو گئے اور ہمیں آسمان میں بادل کا کو ئی ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا کہا: ایک بدلی آئی ہم پر بارش ہو ئی یہاں تک کہ مسجد کی چھت بہ پڑی۔وہ کھجور کی شا خوں سے بنی ہو ئی تھی اور نماز کھڑی کی گئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہے تھے کہا: یہاں تک کہ میں نے آپ کی پیشانی پر مٹی کا نشان بھی دیکھا۔ حدیث حاشیہ: معمر اور اوزاعی دونوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی سند کے ساتھ اس (سابقہ حدیث) کے ہم معنی روایت کی۔ اور ان دونوں کی حدیث میں ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے (فارغ ہو کر) پلٹے تو میں نے آپ کو اس ھال میں دیکھا کہ آپ کی پیشانی اور ناک کے کنا رے پر مٹی کا نشان تھا۔ حدیث حاشیہ: ہشا م نے یحییٰ سے اور انھوں نے ابو سلمہ سے روایت کی،کہا: ہم نے آپس میں لیلۃالقدر کے بارے میں بات چیت کی، پھر میں ابو خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا وہ میرے دوست تھے،میں نے کہا: کیا آپ ہمارے ساتھ نخلستان میں نہیں چلیں گے؟وہ نکلے اور ان (کے کندھوں) پر دھاری دار چادر تھی،میں نے ان سے پوچھا:(کیا) آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃ القدر کا ذکر کرتے ہو ئے سنا،تھا؟ انھوں نے کہا:ہاںہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضا ن کے درمیانے عشرے میں اعتکاف کیا ہم بیسویں (رات) کی صبح کو (اعتکاف سے) نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا:" مجھے لیلۃ القدر دکھا ئی گئی اور اب میں بھول گیا ہوں۔۔۔مجھے بھلا دی گئی ہے۔۔۔اس لیے تم اس کو آخریعشرے کی ہر طاق رات میں تلاش کرو اور میں نے دیکھا کہ میں (اس رات) پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ تو جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ واپس (اعتکاف میں) چلا جا ئے۔کہا: ہم واپس ہو گئے اور ہمیں آسمان میں بادل کا کو ئی ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا کہا: ایک بدلی آئی ہم پر بارش ہو ئی یہاں تک کہ مسجد کی چھت بہ پڑی۔وہ کھجور کی شا خوں سے بنی ہو ئی تھی اور نماز کھڑی کی گئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہے تھے کہا: یہاں تک کہ میں نے آپ کی پیشانی پر مٹی کا نشان بھی دیکھا۔حدیث حاشیہ: رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2825٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)1167.03٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)1995٤. ترقيم فؤاد عبد الباقي (برنامج الكتب التسعة)ترقیم فواد عبد الباقی (کتب تسعہ پروگرام)1167.03٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)2767٧. ترقيم دار إحیاء الکتب العربیة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم دار احیاء الکتب العربیہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)1167.03٨. ترقيم دار السلامترقیم دار السلام2772 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔ دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔ آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔ رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔ رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔ امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔ مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔ دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔ رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔