حدثنا عبد بن حميد ، حدثنا عبد الرزاق بن همام ، حدثنا عبد الملك بن ابي سليمان ، حدثنا سلمة بن كهيل ، حدثني زيد بن وهب الجهني ، انه كان في الجيش الذين كانوا مع علي رضي الله عنه، الذين ساروا إلى الخوارج، فقال عليرضي الله عنه: ايها الناس إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " يخرج قوم من امتي يقرءون القرآن، ليس قراءتكم إلى قراءتهم بشيء، ولا صلاتكم إلى صلاتهم بشيء، ولا صيامكم إلى صيامهم بشيء، يقرءون القرآن يحسبون انه لهم وهو عليهم، لا تجاوز صلاتهم تراقيهم، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية، لو يعلم الجيش الذين يصيبونهم، ما قضي لهم على لسان نبيهم صلى الله عليه وسلم لاتكلوا عن العمل، وآية ذلك ان فيهم رجلا له عضد، وليس له ذراع على راس عضده مثل حلمة الثدي، عليه شعرات بيض، فتذهبون إلى معاوية واهل الشام، وتتركون هؤلاء يخلفونكم في ذراريكم واموالكم، والله إني لارجو ان يكونوا هؤلاء القوم، فإنهم قد سفكوا الدم الحرام واغاروا في سرح الناس، فسيروا على اسم الله "، قال سلمة بن كهيل: فنزلني زيد بن وهب منزلا، حتى قال: مررنا على قنطرة فلما التقينا، وعلى الخوارج يومئذ عبد الله بن وهب الراسبي، فقال لهم: القوا الرماح وسلوا سيوفكم من جفونها، فإني اخاف ان يناشدوكم كما ناشدوكم يوم حروراء، فرجعوا فوحشوا برماحهم وسلوا السيوف وشجرهم الناس برماحهم، قال: وقتل بعضهم على بعض، وما اصيب من الناس يومئذ إلا رجلان، فقال علي رضي الله عنه: التمسوا فيهم المخدج، فالتمسوه فلم يجدوه، فقام علي رضي الله عنه بنفسه حتى اتى ناسا، قد قتل بعضهم على بعض، قال: اخروهم فوجدوه مما يلي الارض فكبر، ثم قال: صدق الله وبلغ رسوله، قال: فقام إليه عبيدة السلماني، فقال: يا امير المؤمنين الله الذي لا إله إلا هو لسمعت هذا الحديث من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إي والله الذي لا إله إلا هو حتى استحلفه ثلاثا وهو يحلف له.حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَيْسَ قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ بِشَيْءٍ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ، مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاتَّكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا لَهُ عَضُدٌ، وَلَيْسَ لَهُ ذِرَاعٌ عَلَى رَأْسِ عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ، فَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ، وَتَتْرُكُونَ هَؤُلَاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ "، قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلًا، حَتَّى قَالَ: مَرَرْنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا، وَعَلَى الْخَوَارِجِ يَوْمَئِذٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ، فَقَالَ لَهُمْ: أَلْقُوا الرِّمَاحَ وَسُلُّوا سُيُوفَكُمْ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، فَرَجَعُوا فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ وَسَلُّوا السُّيُوفَ وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلَّا رَجُلَانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَالْتَمَسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى أَتَى نَاسًا، قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، قَالَ: أَخِّرُوهُمْ فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَلِلَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَسَمِعْتَ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلَاثًا وَهُوَ يَحْلِفُ لَهُ.
سلمہ بن کہیل نے کہا: مجھے زید بن وہب جہنی ؒ نے حدیث سنا ئی کہ وہ اس لشکر میں شامل تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا (اور) خوارج کی طرف روانہ ہوا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: لو گو!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہو ئے سنا: "میری امت سے کچھ لو گ نکلیں گے وہ (اس طرح) قرآن پڑھیں گے کہ تمھا ری قراءت ان کی قراءت کے مقابلے میں کچھ نہ ہو گی اور نہ تمھا ری نمازوں کی ان کی نمازوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہو گی اور نہ ہی تمھا رے روزوں کی ان کے روزوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہو گی۔وہ قرآن پڑھیں گے اور خیال کریں گے وہ ان کے حق میں ہے حا لا نکہ وہ ان کے خلا ف ہو گا ان کی نماز ان کی ہنسلیوں سے آگے نہیں بڑھے گی وہ اس طرح تیزرفتا ری کے ساتھ اسلام سے نکل جا ئیں گے جس طرح تیر بہت تیزی سے شکا ر کے اندر سے نکل جا تا ہے۔: "اگر وہ لشکر جو ان کو جا لے گا جا ن لے کہ ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا ہے تو وہ عمل سے (بے نیاز ہو کر صرف اسی عمل پر) بھروسا کر لیں۔اس (گروہ) کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی ہو گا جس کا عضد (بازو، کندھے سے لے کر کہنی تک کا حصہ) ہو گا کلا ئی نہیں ہو گی اس کے بازو کے سر ے پر پستان کی نو ک کی طرح (کا نشان) ہو گا جس پر سفید بال ہوں گے تو لو گ معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کی طرف جا رہے ہو اور ان (لوگوں) کو چھوڑرہے ہو جو تمھا رے بعد تمھا رے بچوں اور اموال پر آپڑیں گے اللہ کی قسم!مجھے امید ہے کہ وہی قوم ہے کیونکہ انھوں نے (مسلمانوں کا) حرمت والا خون بہا یا ہے اور لوگوں کے مویشیوں پر غارت گر ی کی ہے اللہ کا نا م لے کر (ان کی طرف) چلو۔ سلمہ بن کہیل نے کہا: مجھے زید بن وہب نے (ایک ایک) منزل میں اتارا (ہر منزل کے بارے میں تفصیل سے) بتا یا حتیٰ کے بتا یا: ہم ایک پل پر سے گزرے پھر جب ہمارا آمنا سامنا ہوا تو اس روز خوارج کا سپہ سالار عبد اللہ بن وہب راسی تھا اس نے ان سے کہا: اپنے نیزے پھنیک دو اور اپنی تلواریں نیا موں سے نکا ل لو کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ وہ تمھا رے سامنے (صلح کے لیے اللہ کا نا م) پکا ریں گے جس طرح انھوں نے خروراء کے دن تمھا رے سامنے پکا را تھا تو انھوں نے لوٹ کر اپنے نیزے دو ر پھینک دیے اور تلواریں سونت لیں تو لو گ انھی نیزوں کے ساتھ ان پر پل پڑے اور وہ ایک دوسرے پر قتل ہو ئے (ایک کے بعد دوسرا آتا اور قتل ہو کر پہلو ں پر گرتا) اور اس روز (علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے والے) لو گوں میں سے دو کے سوا کوئی اور قتل نہ ہوا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا ان میں ادھورے ہاتھ والے کو تلا ش کرو لو گوں نے بہت ڈھونڈا لیکن اس کو نہ پا سکے اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ خود اٹھے اور ان لو گوں کے پاس آئے جو قتل ہو کر ایک دوسرے پر گرے ہو ئے تھے آپ نے فرمایا: ان کو ہٹاؤ تو انھوں نے اسے (لا شوں کے نیچے) زمین سے لگا ہوا پا یا۔آپ نے اللہ اکبر کہا پھر کہا: اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی طرح ہم تک) پہنچا دیا۔ (زید بن وہب نے) کہا عبیدہ سلمانی کھڑے ہو کر آپ کے سامنے حاضر ہو ئے اور کہا اے امیر المومنین! اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لا ئق نہیں!آپ نے واقعی یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ تو انھوں نے کہا: ہاں اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لا ئق نہیں!حتیٰ کہ اس نے آپ سے تین دفعہ قسم لی اور آپ اس کے سامنے حلف اٹھاتے رہے۔
زید بن وہب جہنی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: کہ وہ اس لشکر میں شامل تھے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا (اور)خوارج کی طرف روانہ ہوا تھا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: لو گو!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر تے ہو ئے سنا:"میری امت سے کچھ لو گ نکلیں گے وہ (اس طرح) قرآن پڑھیں گے کہ تمھا ری قراءت ان کی قراءت کے مقابلے میں کچھ نہ ہو گی اور نہ تمھاری نمازوں کی ان کی نمازوں کے مقابلے میں کو ئی حیثیت ہو گی اور نہ ہی تمھا رے روزوں کی ان کے روزوں کے مقابلے میں کو ئی حیثیت ہو گی۔وہ قرآن پڑھیں گے اور خیال کریں گے وہ ان کے حق میں ہے حا لا نکہ وہ ان کے خلا ف ہو گا ان کی نماز ان کی ہنسلیوں سے آگے نہیں بڑھے گی وہ اس طرح تیزرفتا ری کے ساتھ اسلام سے نکل جائیں گے جس طرح تیر بہت تیزی سے شکا ر کے اندر سے نکل جا تا ہے۔:"اگر وہ لشکر جو ان کو جا لے گا جا ن لے کہ ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا ہے تو وہ عمل سے (بے نیاز ہو کر صرف اسی عمل پر) بھروسا کر لیں۔اس (گروہ)کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی ہو گا جس کا عضد(بازو،کندھے سے لے کر کہنی تک کا حصہ) ہو گا کلا ئی نہیں ہو گی اس کے بازو کے سر ے پر پستان کی نو ک کی طرح (کا نشان) ہو گا جس پر سفید بال ہوں گے تو لو گ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہل شام کی طرف جا رہے ہو اور ان(لوگوں) کو چھوڑرہے ہو جو تمھا رے بعد تمھا رے بچوں اور اموال پر آپڑیں گے اللہ کی قسم!مجھے امید ہے کہ وہی قوم ہے کیونکہ انھوں نے (مسلمانوں کا) حرمت والا خون بہا یا ہے اور لوگوں کے مویشیوں پر غارت گر ی کی ہے اللہ کا نا م لے کر (ان کی طرف) چلو۔سلمہ بن کہیل نے کہا: مجھے زید بن وہب نے (ایک ایک) منزل میں اتارا (ہر منزل کے بارے میں تفصیل سے) بتا یا حتیٰ کے بتا یا:ہم ایک پل پر سے گزرے پھر جب ہمارا آمنا سامنا ہوا تو اس روز خوارج کا سپہ سالار عبد اللہ بن وہب راسی تھا اس نے ان سے کہا: اپنے نیزے پھنیک دو اور اپنی تلواریں نیا موں سے نکا ل لو کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ وہ تمھا رے سامنے (صلح کے لیے اللہ کا نا م) پکا ریں گے جس طرح انھوں نے خروراء کے دن تمھا رے سامنے پکا را تھا تو انھوں نے لوٹ کر اپنے نیزے دو ر پھینک دیے اور تلواریں سونت لیں تو لو گ انھی نیزوں کے ساتھ ان پر پل پڑے اور وہ ایک دوسرے پر قتل ہو ئے (ایک کے بعد دوسرا آتا اور قتل ہو کر پہلو ں پر گرتا) اور اس روز (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ دینے والے) لو گوں میں سے دو کے سوا کو ئی اور قتل نہ ہوا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ان میں ادھورے ہاتھ والے کو تلا ش کرو لو گوں نے بہت ڈھونڈا لیکن اس کو نہ پا سکے اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود اٹھے اور ان لو گوں کے پاس آئے جو قتل ہو کر ایک دوسرے پر گرے ہو ئے تھے آپ نے فر یا:ان کو ہٹاؤ تو انھوں نے اسے (لا شوں کے نیچے) زمین سے لگا ہوا پا یا۔آپ نے اللہ اکبر کہا پھر کہا: اللہ نے سچ فر یا اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی طرح ہم تک) پہنچا دیا۔(زید بن وہب نے) کہا عبیدہ سلمانی کھڑے ہو کر آپ کے سامنے حاضر ہو ئے اور کہا اے امیر المومنین! اس اللہ کی قسم جس کے سوا کو ئی عبادت کے لا ئق نہیں!آپ نے واقعی یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ تو انھوں نے کہا: ہاں اس اللہ کی قسم جس کے سوا کو ئی عبادت کے لا ئق نہیں!حتیٰ کہ اس نے آپ سے تین دفعہ قسم لی اور آپ اس کے سامنے حلف اٹھاتے رہے۔
أعرف صفتهم في هؤلاء يقولون الحق بألسنتهم لا يجوز هذا منهم وأشار إلى حلقه من أبغض خلق الله إليه منهم أسود إحدى يديه طبي شاة أو حلمة ثدي فلما قتلهم علي بن أبي طالب قال انظروا فنظروا فلم يجدوا شيئا فقال ارجعوا فوالله ما كذبت ولا كذبت مرتين أو ثل
فيهم رجل مخدج اليد أو مودن اليد أو مثدون اليد لولا أن تبطروا لحدثتكم بما وعد الله الذين يقتلونهم على لسان محمد قال قلت آنت سمعته من محمد قال إي ورب الكعبة إي ورب الكعبة إي ورب الكعبة
يخرج قوم من أمتي يقرءون القرآن ليس قراءتكم إلى قراءتهم بشيء ولا صلاتكم إلى صلاتهم بشيء ولا صيامكم إلى صيامهم بشيء يقرءون القرآن يحسبون أنه لهم وهو عليهم لا تجاوز صلاتهم تراقيهم يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لو يعلم الجيش الذين يصيبونهم ما قضي
يخرج قوم من أمتي يقرءون القرآن ليست قراءتكم إلى قراءتهم شيئا ولا صلاتكم إلى صلاتهم شيئا ولا صيامكم إلى صيامهم شيئا يقرءون القرآن يحسبون أنه لهم وهو عليهم لا تجاوز صلاتهم تراقيهم يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لو يعلم الجيش الذين يصيبونهم ما قض
يخرج قوم في آخر الزمان أحداث الأسنان سفهاء الأحلام يقولون من خير قول البرية لا يجاوز إيمانهم حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية فإذا لقيتموهم فاقتلوهم فإن قتلهم أجر لمن قتلهم يوم القيامة
لما قتل الخوارج يوم النهر ، قال : اطلبوا المجدع ، المخدج ، فطلبوه ، فلم يجدوه ، ثم طلبوه ، فوجدوه ، فقال : لولا أن تبطروا لحدثتكم بما قضى الله عز وجل على لسان نبيه صلى الله عليه وآله وسلم لمن قتلهم
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2467
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) السرح: السارح، السارحة، چرنے والے مویشی، (2) نزلني نزلا: یعنی نزلني منزلا منزلا، ایک ایک پڑاؤ کا تذکرہ کیا۔ (3) قنطرة: پل جس کا نام دبزجان تھا، جہاں حضرت علی نے خطاب فرمایا۔ (4) جفون: جفن کی جمع ہے میان۔ (5) وحوا برماحهم، اپنے نیزے دور پھینک دیے تاکہ تلواریں حائل کریں۔ (6) شجرهم الناس: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی ان پر پل پڑے، اور خوارج ڈھیر ہو کر ایک دوسرے پر گرنے لگے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2467
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4107
´جو تلوار نکال کر لوگوں پر چلانا شروع کر دے۔` علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو کم سن اور کم عقل ہوں گے، بات چیت میں وہ لوگوں میں سب سے اچھے ہوں گے، لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، لہٰذا جب تم ان کو پاؤ تو انہیں قتل کرو کیونکہ ان کے قتل کرنے والے کو قیامت کے دن اجر ملے گا۔“[سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4107]
اردو حاشہ: (1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ اہل اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے والا واجب القتل ہے (الا یہ کہ وہ تائب ہو جائے)۔ (2) اس حدیث سے ایسے لوگوں کو زجر و توبیخ کرنا بھی ثابت ہوتا ہے جو قرآنِ مقدس کی ان تمام آیات اور ان احادیث رسول کے، صرف ظاہری معنیٰ مراد لیتے ہیں، نیز یہ بھی کہ ان کے ظاہری معنیٰ اجماعِ اسلام کے خلاف ہوتے ہیں۔ (3) دین میں غلو کرنے والوں کو تنبیہ کرنا بھی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح اس انداز کی عبادات سے بچنے کا درس بھی ملتا ہے جس کی اجازت شریعت نے نہیں دی اور جس میں شدت اور سختی کا پہلو نمایاں اور غالب ہو، حالانکہ شارع ﷺ کی لائی ہوئی شریعت انتہائی آسان، سہل اور ہر ایک مرد و زن کے لیے قابل عمل ہے۔ (4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں پر سختی کرنا اور ان کے ساتھ عداوت و نفرت رکھنا مستحب بلکہ ضروری ہے۔ (5) یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی عظیم دلیل بھی ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں کی اطلاع (بذریعۂ وحی) ان کے ظہور سے بھی پہلے دے دی تھی۔ (6) خارجیوں میں پائی جانے والی خرابیاں اگر آج بھی لوگوں میں پائی جائیں تو مذکورہ بالا شروط کے تحت انہیں قتل کرنا جائز ہو گا اور ان کے قاتل کے لیے روزِ قیامت اجر بھی ثابت ہو گا بشرطیکہ یہ کام امام عادل اور حاکم وقت کرے۔ (7) خارجی لوگ امتِ محمدیہ کے بدعتی گروہوں میں سے گندا اور بدترین بدعتی فرقہ ہیں۔ (8) اعتقادِ فاسد کی بنا پر امام عادل کے خلاف بغاوت کرنے والے، اس سے جنگ کرنے والے اور زمین میں شر اور فساد کرنے والے، نیز اسی طرح کے قبیح افعال کے مرتکب لوگوں کے خلاف قتال کرنا جائز ہے۔ و اللہ أعلم۔ (9)”نو عمر اور کم عقل“ عموماً نوعمری میں عقل کم ہی ہوتی ہے۔ علم بھی پختہ نہیں ہوتا، جذبات غالب ہوتے ہیں۔ تجربہ وسیع نہیں ہوتا جبکہ علم عمر اور تجربہ و مطالعہ سے پختہ ہوتا ہے، اس لیے ”نوعمر“ عالم کو فتویٰ بازی سے پرہیز کرنا چاہیے، خصوصاً جبکہ اس کے فتاویٰ جمہور اہل علم اور اہل فتویٰ سے مختلف ہوں۔ نو عمر اور نو آموز لوگ شیطان کے جال میں جلدی پھنستے ہیں اور امت میں فتنے کا سبب بنتے ہیں۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْها۔ (10)”مخلوق میں سے بہترین“ احادیث میں دو طرح کے الفاظ آئے ہیں: مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ۔ اور مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ۔۔ ترجمہ میں تو فرق ہے مگر نتیجہ ایک ہی ہے۔ اوپر حدیث میں ترجمہ پہلے الفاظ کے لحاظ سے کیا گیا ہے، دوسرے الفاظ کا ترجمہ یوں ہو گا: ”لوگوں کی بہترین باتیں۔“ اس سے مراد قرآن و احادیث ہی ہیں، یعنی وہ بات تو صحیح کریں گے مگراس کا مفہوم غلط سمجھیں گے۔ قرآن مجید کا صحیح مفہوم احادیث کی مدد سے اور احادیث کا صحیح مفہوم صحابہ کے طرز عمل اور فتاویٰ کی مدد سے سمجھنا چاہیے ورنہ گمراہی کا خطرہ ہے۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4107
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4768
´چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان۔` زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس فوج میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی، علی نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قرآن پڑھیں گے، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہو گا، نہ تمہاری نماز ان کی نماز کے مقابلے کچھ ہو گی، اور نہ ہی تمہارا روزہ ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لیے (ثواب) ہے حالانکہ وہ ان پر (عذاب) ہو گا، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی، وہ اسلام سے نکل جا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4768]
فوائد ومسائل: 1: جو اعمال ایمان واخلاص اور تقوی وسنت کے مطابق نہ ہوں، وہ مقدارمیں خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں۔
2: عام سیاسی مخالف اور دینی دشمن مقابلے میں ہوں تو مسلمان کو اپنی نظر دینی دشمن پر رکھنی چاہیے۔
3:حضرت علی رضی اللہ وہ خلیفہ راشدتھےجنہوں نے خارجیوں کا قلع قمع کرنے میں سرتوڑکوشش فرمائی۔
4: امام مالک کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت علی رضی اللہ نے سب کے سامنے ایک حقیقت واضح کرنے کے لئے بار بار قسم کے ساتھ جواب دیا، یہ ضرورت کے مطابق تھا، لیکن اس سے نہ سمجھ لیا جائے کہ کسی عام سی بات کو اس طرح کوئی پوچھے تو جواب دینا ضروری ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4768
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2462
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جب میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناؤں، تو آسمان سے گر پڑنا (تباو برباد ہونا) مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں آپﷺ کی طرف ایسی بات منسوب کروں؟ جو آپﷺ نے نہیں فرمائی۔ اور جب میں آپس کی بات کروں تو جنگ ایک چال اور تدبیر ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اخیر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی کم عمر کم عقل بظاہر مخلوق کی بہترین بات کہیں گے قرآن پڑھیں گے جو ان کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2462]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ خوارج کا ظہور مختلف ادوار میں ہوا ہے اور آئندہ بھی ہو گا یہ قرآن کے نام سے انتہا پسندی کرتے ہیں اپنے پہلے ظہور میں انہوں نے ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ﴾ کا نعرہ بلند کر کے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف خروج کیا تھا۔ 2۔ (الْحَرْبُ خُدْعَةٌ) لڑائی ایک چال اورخفیہ تدبیر ہے۔ جو گروہ اور جماعت بہتر چال اورعمدہ تدبیراختیار کر لیتی ہے وہ کامیاب ہوتی ہے دشمن کی چال اور تدبیر سے کسی وقت بھی غافل نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ آج کل مسلمان یہود وہنود کی چالوں سے غافل ہو کر ان کے نرغہ میں ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2462
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3611
3611. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں تو آپ پر جھوٹ بولنے سے مجھ کو یہ زیادہ محبوب ہے کہ میں آسمان سے گر جاؤں۔ اور جب میں تم سے وہ باتیں کروں جو میرے اور تمھارے درمیان ہوتی ہیں تو (کوئی نقصان نہیں کیونکہ)لڑائی ایک پُر فریب چال کا نام ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ”آخر زمانہ میں کچھ نو عمر بے وقوف پیدا ہوں گے جو زبان سے بہترین خلائق کی باتیں کریں گے لیکن اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جا تا ہے اور ایمان ان کے حلق کے نیچے اترے گا۔ ایسے لوگوں سے تمھاری جہاں ملاقات ہو تو انھیں قتل کرنے کی کوشش کرنا کیونکہ قیامت کے ان اس شخص کو ثواب ملے گا جو ان کو قتل کرے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3611]
حدیث حاشیہ: کہیں گے قرآن پرچلو، قرآن کی آیتیں پڑھیں گے، ان کا معنی غلط کریں گے، ان سے خارجی مردود مراد ہیں۔ یہ لوگ جب نکلے تو حضرت علی ؓ سے کہتے تھے کہ قرآن پر چلو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّٰهِ﴾(الأنعام: 57/6) تم نے آدمیوں کو کیسے حکم مقرر کیا ہے اور اس بنا پر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ہردو کی تکفیر کرتے تھے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا: ''کلمة حق أرید بھا الباطل'' یعنی آیت قرآن تو برحق ہے مگر جو مطلب انہوں نے سمجھا ہے وہ غلط ہے۔ جتنے گمراہ فرقے ہیں وہ سب اپنی دانست میں قرآن سے دلیل لاتے ہیں مگر ان کی گمراہی اس سے کھل جاتی ہے کہ قرآن کی تفسیر اس طرح نہیں کرتے جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے ماثور ہے جن پر قرآن اترا تھا اور جو اہل زبان تھے۔ یہ کل کے لونڈے قرآن سمجھ گئے اور صحابہ اور تابعین اور خود پیغمبر صاحب جن پر قرآن اترا تھا انہوں نے نہیں سمجھا، یہ بھی کوئی بات ہے۔ آج کل کے اہل بدعت کا بھی یہی حال ہے جو آیات قرآنی سے اپنے عقائد باطلہ کے اثبات کے لیے دلائل پیش کرکے آیات قرآنی کے معانی ومطالب مسخ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3611
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5057
5057. سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”آخر زمانے میں نوجوان مگر بے وقوف ظاہر ہوں گے، وہ مخلوق سے بہترین ذات کا قول ذکر کریں گے لیکن وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے، جیسے تیر، شکار کو پار کر کے نکل جاتا ہے، ایمان ان کے حلق سے نیچےنہیں اترے گا، تم جہاں بھی انہیں پاؤ وہیں قتل کر دو۔ ان کو قتل کرنے کا قیامت کے دن اجر ملے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5057]
حدیث حاشیہ: خارجی مراد ہیں جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا اور آیات قرآنی کا بے محل استعمال کرکے مسلمانوں میں فتنہ برپا کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5057
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3611
3611. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں تو آپ پر جھوٹ بولنے سے مجھ کو یہ زیادہ محبوب ہے کہ میں آسمان سے گر جاؤں۔ اور جب میں تم سے وہ باتیں کروں جو میرے اور تمھارے درمیان ہوتی ہیں تو (کوئی نقصان نہیں کیونکہ)لڑائی ایک پُر فریب چال کا نام ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ”آخر زمانہ میں کچھ نو عمر بے وقوف پیدا ہوں گے جو زبان سے بہترین خلائق کی باتیں کریں گے لیکن اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جا تا ہے اور ایمان ان کے حلق کے نیچے اترے گا۔ ایسے لوگوں سے تمھاری جہاں ملاقات ہو تو انھیں قتل کرنے کی کوشش کرنا کیونکہ قیامت کے ان اس شخص کو ثواب ملے گا جو ان کو قتل کرے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3611]
حدیث حاشیہ: 1۔ جس طرح ایک تیر کمان سے نکلنے کے بعد شکار کو چیرتا ہواگزر جانے پر بھی بالکل صاف شفاف نظر آتا ہے۔ حالانکہ اس سے شکار زخمی ہو کر خاک و خون میں تڑپ رہا ہوتا ہے۔ چونکہ اس نے نہا یت تیزی کے ساتھ اپنا فاصلہ طے کیا ہوتا ہے۔ اس لیے خون اور گوبر وغیرہ کا کوئی نشان اس کے کسی حصے پر دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح وہ لوگ بھی دین سے کوسوں دور ہوں گے اور اپنی بےدینی سے جسداسلام کو بری طرح زخمی کریں گے لیکن بے دینی کے اثرات ان میں کہیں نظر نہیں آئیں گے بظاہر دینداری کا لبادہ اوڑھ رکھا ہوگا اور لوگوں کو قرآن پر چلنے کی دعوت دیں گے قرآنی ایات پڑھیں گے لیکن یہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ 2۔ اس پیش گوئی سے خارجی مراد ہیں اور ان کے فتنہ تکفیر کی طرف اشارہ ہے۔ وہ کہتے تھے۔ ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّٰهِ﴾(الأنعام: 57/6) فیصلہ کرنا اللہ کا اختیار ہے لیکن اس آیت کریمہ کی آڑ میں وہ حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی تکفیر کرتے تھے۔ حضرت علی ؓ ان کے جواب میں فرمایا کرتے تھے۔ کہ قرآنی آیت مبنی برحقیقت ہے مگر اسے غلط معنی پہنائے گئے ہیں جتنے بھی گمراہ فرقے ہیں وہ سب اپنی سمجھ کے مطابق قرآن سے دلیل لاتے ہیں مگر اس کی تفسیر کرتے وقت ان کی گمراہی کھل جاتی ہے۔ وہ اس کے معنی اپنی مرضی سے متعین کرتے ہیں جو سلف صالحین سے منقول نہیں ہوتے۔ بہرحال خوارج کا دین میں داخل ہونا اور اس سے تیزی کے ساتھ نکلنا کہ انھیں کچھ حاصل نہ ہو ایسے ہے جیسے تیر شکار میں داخل ہوا پھر نکل گیا خون اور گوبر سے کوئی چیز بھی اس کے ساتھ نہ لگ سکی کیونکہ اس نے بڑی تیزی سے اپنا فاصلہ طے کیا۔ ایسا ہی یہ لوگ بڑی تیزی کے ساتھ دین سے نکل گئے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3611
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6930
6930. حضرت سوید بن غفلہ سے روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا: جب میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کروں تو اللہ کی قسم! میرا آسمان سے گرنا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں آپ ﷺ پر جھوٹ باندھوں۔ اور جب میں تم سے وہ بات کروں جو میرے اور تمہارے درمیان ہے تو بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: عنقریب آخر زمانے میں ایک ایسی قوم ظاہر ہوگی جو نو خیز، کم عقل لوگوں پر مشتمل ہوگی۔ ظاہر میں تو تمام مخلوق میں بہتر کلام (قرآن مجید) کو پڑھیں گے لیکن ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے آر پا ہو جاتا ہے، تم جہاں بھی ان سے ملو ان کو قتل کر دو کیونکہ ان کے قتل کرنے والے کو قیامت کے دن بہت ثواب ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6930]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اس وقت بیان کی جب انھوں نے نہروان میں خوارج کو قتل کیا اور ان میں وہ علامتیں دیکھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بیان فرمائی تھیں۔ آپ باربار فرماتے: اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 358/12) ایک رویت میں ہے کہ اگر میرے لشکر کو معلوم ہوجائے کہ ان لوگوں کو قتل کرنے مین کتنا ثواب ہے تو آئندہ عمل کرنا ہی چھوڑ دیں کہ ہمیں اخروی نجات کے لیے ان کا قتل ہی کافی ہے۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4768) عبیدہ بن عمرو نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: واقعی آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ باتیں سنی ہیں؟ تو انھوں نے رب کعبہ کی قسم اٹھا کر فرمایا: ہاں، میں نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس لیے قسم اٹھا کر یہ بات بیان کرتے تھے کہ ایک تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کا اظہار تھا، دوسرے یہ واقعہ ان کے برحق ہونے کی دلیل تھی، تیسرے لوگوں کو اعتماد میں لینا مقصود تھا، نیز آپ فرماتے تھے کہ ان لوگوں سے جنگ کرنا اور انھیں صفحۂ ہستی سے مٹانا ہر مسلمان کا حق ہے۔ (2) ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ حروریہ، یعنی خوارج پہلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے لیکن انھوں نے جب کہا کہ فیصلہ کرنا تو اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے، پھر وہ آپ سے الگ ہوگئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ لوگ بات تو صحیح کہتے ہیں لیکن اس غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کی علامتیں بیان کی ہیں، میں ان کی روشنی میں انھیں خوب پہچانتا ہوں۔ یہ لوگ زبان سے حق بات کہتے ہیں لیکن حق ان کے حلق سے نہیں اترتا، اس بنا پر یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2468(1066) ، وفتح الباری: 12/360)(3) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ خوارج اور ملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں قتل کیا، اسی طرح آئندہ بھی اگر ایسے لوگ پیدا ہوں تو انھیں ابتدا ہی میں قتل نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان پر پہلے حجت قائم کی جائے، حق واضح کیا جائے اور ان کے شبہات دور کیے جائیں۔ جب وہ حق قبول کرنے سے انکار کر دیں تو ایسے لوگوں کو قتل کرنا درست ہے کیونکہ ان کا وجود دین حق کی نشر واشاعت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6930