صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان
The Book of Obliging The Apostates and The Repentance of Those Who Refuse The Truth Obstinately, and To Fight Against Such People
6. بَابُ قَتْلِ الْخَوَارِجِ وَالْمُلْحِدِينَ بَعْدَ إِقَامَةِ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ:
6. باب: خارجیوں اور بے دینوں سے ان پر دلیل قائم کر کے لڑنا۔
(6) Chapter. Killing Al-Khawarij (some people who dissented from the religion and disagreed with the rest of Muslims), and Al-Mullhidun (heretical) after the establishment of firm proof against them.
حدیث نمبر: Q6930
Save to word اعراب English
وقول الله تعالى وما كان الله ليضل قوما بعد إذ هداهم حتى يبين لهم ما يتقون سورة التوبة آية 115 وكان ابن عمر يراهم شرار خلق الله، وقال إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ سورة التوبة آية 115 وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ، وَقَالَ إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْكُفَّارِ فَجَعَلُوهَا عَلَى الْمُؤْمِنِينَ.
‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وما كان الله ليضل قوما بعد إذ هداهم حتى يبين لهم ما يتقون‏» اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد (یعنی ایمان کی توفیق دینے کے بعد) ان سے مواخذہ کرے جب تک ان سے بیان نہ کرے کہ فلاں فلاں کاموں سے بچے رہو۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (اس کو طبری نے وصل کیا) خارجی لوگوں کو بدترین خلق اللہ سمجھتے تھے، کہتے تھے انہوں نے کیا کیا جو آیتیں کافروں کے باب میں اتری تھیں ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا۔

حدیث نمبر: 6930
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثنا خيثمة، حدثنا سويد بن غفلة، قال علي رضي الله عنه: إذا حدثتكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا، فوالله لان اخر من السماء احب إلي من ان اكذب عليه، وإذا حدثتكم فيما بيني وبينكم، فإن الحرب خدعة، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" سيخرج قوم في آخر الزمان احداث الاسنان، سفهاء الاحلام، يقولون: من خير قول البرية، لا يجاوز إيمانهم حناجرهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، فاينما لقيتموهم فاقتلوهم، فإن في قتلهم اجرا لمن قتلهم يوم القيامة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا خَيْثَمَةُ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ غَفَلَةَ، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، فَوَاللَّهِ لَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ، فَإِنَّ الْحَرْبَ خِدْعَةٌ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" سَيَخْرُجُ قَوْمٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ: مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، لَا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم ہمارے سے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا ہم سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن نے، کہا ہم سے سوید بن غفلہ نے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا جب میں تم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کروں تو قسم اللہ کی اگر میں آسمان سے نیچے گر پڑوں یہ مجھ کو اس سے اچھا لگتا ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں ہاں جب مجھ میں تم میں آپس میں گفتگو ہو تو اس میں بنا کر بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے) لڑائی تدبیر اور مکر کا نام ہے۔ دیکھو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہو گا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف) وہ پڑھیں گے مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔ (اس میں کچھ لگا نہیں رہتا) تم ان لوگوں کو جہاں پانا بے تامل قتل کرنا، ان کو جہاں پاؤ قتل کرنے میں قیامت کے دن ثواب ملے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Ali: Whenever I tell you a narration from Allah's Apostle, by Allah, I would rather fall down from the sky than ascribe a false statement to him, but if I tell you something between me and you (not a Hadith) then it was indeed a trick (i.e., I may say things just to cheat my enemy). No doubt I heard Allah's Apostle saying, "During the last days there will appear some young foolish people who will say the best words but their faith will not go beyond their throats (i.e. they will have no faith) and will go out from (leave) their religion as an arrow goes out of the game. So, where-ever you find them, kill them, for who-ever kills them shall have reward on the Day of Resurrection."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 84, Number 64


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري5057علي بن أبي طالبيمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية
   صحيح البخاري6930علي بن أبي طالبلا يجاوز إيمانهم حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية
   صحيح البخاري3611علي بن أبي طالبيمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية
   صحيح مسلم2468علي بن أبي طالبأعرف صفتهم في هؤلاء يقولون الحق بألسنتهم لا يجوز هذا منهم وأشار إلى حلقه من أبغض خلق الله إليه منهم أسود إحدى يديه طبي شاة أو حلمة ثدي فلما قتلهم علي بن أبي طالب قال انظروا فنظروا فلم يجدوا شيئا فقال ارجعوا فوالله ما كذبت ولا كذبت مرتين أو ثل
   صحيح مسلم2465علي بن أبي طالبفيهم رجل مخدج اليد أو مودن اليد أو مثدون اليد لولا أن تبطروا لحدثتكم بما وعد الله الذين يقتلونهم على لسان محمد قال قلت آنت سمعته من محمد قال إي ورب الكعبة إي ورب الكعبة إي ورب الكعبة
   صحيح مسلم2462علي بن أبي طالبيقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية
   صحيح مسلم2467علي بن أبي طالبيخرج قوم من أمتي يقرءون القرآن ليس قراءتكم إلى قراءتهم بشيء ولا صلاتكم إلى صلاتهم بشيء ولا صيامكم إلى صيامهم بشيء يقرءون القرآن يحسبون أنه لهم وهو عليهم لا تجاوز صلاتهم تراقيهم يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لو يعلم الجيش الذين يصيبونهم ما قضي
   سنن أبي داود4767علي بن أبي طالبيمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية
   سنن أبي داود4768علي بن أبي طالبيخرج قوم من أمتي يقرءون القرآن ليست قراءتكم إلى قراءتهم شيئا ولا صلاتكم إلى صلاتهم شيئا ولا صيامكم إلى صيامهم شيئا يقرءون القرآن يحسبون أنه لهم وهو عليهم لا تجاوز صلاتهم تراقيهم يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لو يعلم الجيش الذين يصيبونهم ما قض
   سنن النسائى الصغرى4107علي بن أبي طالبيخرج قوم في آخر الزمان أحداث الأسنان سفهاء الأحلام يقولون من خير قول البرية لا يجاوز إيمانهم حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية فإذا لقيتموهم فاقتلوهم فإن قتلهم أجر لمن قتلهم يوم القيامة
   المعجم الصغير للطبراني597علي بن أبي طالبلا يجاوز إيمانهم حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية
   المعجم الصغير للطبراني871علي بن أبي طالبلقد علم أولو العلم من آل محمد وعائشة بنت أبي بكر فاسألوها أن أصحاب الأسود ذا الثدية ملعونون على لسان النبي
   المعجم الصغير للطبراني594علي بن أبي طالب لولا أن تبطروا ، لحدثتكم بموعود الله على لسان نبيه صلى الله عليه وآله وسلم لمن قتل هؤلاء يعني الخوارج
   المعجم الصغير للطبراني596علي بن أبي طالب لما قتل الخوارج يوم النهر ، قال : اطلبوا المجدع ، المخدج ، فطلبوه ، فلم يجدوه ، ثم طلبوه ، فوجدوه ، فقال : لولا أن تبطروا لحدثتكم بما قضى الله عز وجل على لسان نبيه صلى الله عليه وآله وسلم لمن قتلهم

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6930 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6930  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اس وقت بیان کی جب انھوں نے نہروان میں خوارج کو قتل کیا اور ان میں وہ علامتیں دیکھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بیان فرمائی تھیں۔
آپ باربار فرماتے:
اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔
(فتح الباري: 358/12)
ایک رویت میں ہے کہ اگر میرے لشکر کو معلوم ہوجائے کہ ان لوگوں کو قتل کرنے مین کتنا ثواب ہے تو آئندہ عمل کرنا ہی چھوڑ دیں کہ ہمیں اخروی نجات کے لیے ان کا قتل ہی کافی ہے۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4768)
عبیدہ بن عمرو نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
واقعی آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ باتیں سنی ہیں؟ تو انھوں نے رب کعبہ کی قسم اٹھا کر فرمایا:
ہاں، میں نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اس لیے قسم اٹھا کر یہ بات بیان کرتے تھے کہ ایک تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کا اظہار تھا، دوسرے یہ واقعہ ان کے برحق ہونے کی دلیل تھی، تیسرے لوگوں کو اعتماد میں لینا مقصود تھا، نیز آپ فرماتے تھے کہ ان لوگوں سے جنگ کرنا اور انھیں صفحۂ ہستی سے مٹانا ہر مسلمان کا حق ہے۔
(2)
ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ حروریہ، یعنی خوارج پہلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے لیکن انھوں نے جب کہا کہ فیصلہ کرنا تو اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے، پھر وہ آپ سے الگ ہوگئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:
یہ لوگ بات تو صحیح کہتے ہیں لیکن اس غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کی علامتیں بیان کی ہیں، میں ان کی روشنی میں انھیں خوب پہچانتا ہوں۔
یہ لوگ زبان سے حق بات کہتے ہیں لیکن حق ان کے حلق سے نہیں اترتا، اس بنا پر یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2468(1066)
، وفتح الباری: 12/360)
(3)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ خوارج اور ملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں قتل کیا، اسی طرح آئندہ بھی اگر ایسے لوگ پیدا ہوں تو انھیں ابتدا ہی میں قتل نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان پر پہلے حجت قائم کی جائے، حق واضح کیا جائے اور ان کے شبہات دور کیے جائیں۔
جب وہ حق قبول کرنے سے انکار کر دیں تو ایسے لوگوں کو قتل کرنا درست ہے کیونکہ ان کا وجود دین حق کی نشر واشاعت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6930   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4107  
´جو تلوار نکال کر لوگوں پر چلانا شروع کر دے۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو کم سن اور کم عقل ہوں گے، بات چیت میں وہ لوگوں میں سب سے اچھے ہوں گے، لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، لہٰذا جب تم ان کو پاؤ تو انہیں قتل کرو کیونکہ ان کے قتل کرنے والے کو قیامت کے دن اجر ملے گا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4107]
اردو حاشہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ اہل اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے والا واجب القتل ہے (الا یہ کہ وہ تائب ہو جائے)۔
(2) اس حدیث سے ایسے لوگوں کو زجر و توبیخ کرنا بھی ثابت ہوتا ہے جو قرآنِ مقدس کی ان تمام آیات اور ان احادیث رسول کے، صرف ظاہری معنیٰ مراد لیتے ہیں، نیز یہ بھی کہ ان کے ظاہری معنیٰ اجماعِ اسلام کے خلاف ہوتے ہیں۔
(3) دین میں غلو کرنے والوں کو تنبیہ کرنا بھی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح اس انداز کی عبادات سے بچنے کا درس بھی ملتا ہے جس کی اجازت شریعت نے نہیں دی اور جس میں شدت اور سختی کا پہلو نمایاں اور غالب ہو، حالانکہ شارع ﷺ کی لائی ہوئی شریعت انتہائی آسان، سہل اور ہر ایک مرد و زن کے لیے قابل عمل ہے۔
(4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں پر سختی کرنا اور ان کے ساتھ عداوت و نفرت رکھنا مستحب بلکہ ضروری ہے۔
(5) یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی عظیم دلیل بھی ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں کی اطلاع (بذریعۂ وحی) ان کے ظہور سے بھی پہلے دے دی تھی۔
(6) خارجیوں میں پائی جانے والی خرابیاں اگر آج بھی لوگوں میں پائی جائیں تو مذکورہ بالا شروط کے تحت انہیں قتل کرنا جائز ہو گا اور ان کے قاتل کے لیے روزِ قیامت اجر بھی ثابت ہو گا بشرطیکہ یہ کام امام عادل اور حاکم وقت کرے۔
(7) خارجی لوگ امتِ محمدیہ کے بدعتی گروہوں میں سے گندا اور بدترین بدعتی فرقہ ہیں۔
(8) اعتقادِ فاسد کی بنا پر امام عادل کے خلاف بغاوت کرنے والے، اس سے جنگ کرنے والے اور زمین میں شر اور فساد کرنے والے، نیز اسی طرح کے قبیح افعال کے مرتکب لوگوں کے خلاف قتال کرنا جائز ہے۔ و اللہ أعلم۔
(9) نو عمر اور کم عقل عموماً نوعمری میں عقل کم ہی ہوتی ہے۔ علم بھی پختہ نہیں ہوتا، جذبات غالب ہوتے ہیں۔ تجربہ وسیع نہیں ہوتا جبکہ علم عمر اور تجربہ و مطالعہ سے پختہ ہوتا ہے، اس لیے نوعمر عالم کو فتویٰ بازی سے پرہیز کرنا چاہیے، خصوصاً جبکہ اس کے فتاویٰ جمہور اہل علم اور اہل فتویٰ سے مختلف ہوں۔ نو عمر اور نو آموز لوگ شیطان کے جال میں جلدی پھنستے ہیں اور امت میں فتنے کا سبب بنتے ہیں۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْها۔
(10) مخلوق میں سے بہترین احادیث میں دو طرح کے الفاظ آئے ہیں: مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ۔ اور مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ۔۔ ترجمہ میں تو فرق ہے مگر نتیجہ ایک ہی ہے۔ اوپر حدیث میں ترجمہ پہلے الفاظ کے لحاظ سے کیا گیا ہے، دوسرے الفاظ کا ترجمہ یوں ہو گا: لوگوں کی بہترین باتیں۔ اس سے مراد قرآن و احادیث ہی ہیں، یعنی وہ بات تو صحیح کریں گے مگراس کا مفہوم غلط سمجھیں گے۔ قرآن مجید کا صحیح مفہوم احادیث کی مدد سے اور احادیث کا صحیح مفہوم صحابہ کے طرز عمل اور فتاویٰ کی مدد سے سمجھنا چاہیے ورنہ گمراہی کا خطرہ ہے۔ و اللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4107   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4768  
´چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان۔`
زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس فوج میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی، علی نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قرآن پڑھیں گے، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہو گا، نہ تمہاری نماز ان کی نماز کے مقابلے کچھ ہو گی، اور نہ ہی تمہارا روزہ ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لیے (ثواب) ہے حالانکہ وہ ان پر (عذاب) ہو گا، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی، وہ اسلام سے نکل جا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4768]
فوائد ومسائل:
1: جو اعمال ایمان واخلاص اور تقوی وسنت کے مطابق نہ ہوں، وہ مقدارمیں خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں۔

2: عام سیاسی مخالف اور دینی دشمن مقابلے میں ہوں تو مسلمان کو اپنی نظر دینی دشمن پر رکھنی چاہیے۔

3:حضرت علی رضی اللہ وہ خلیفہ راشدتھےجنہوں نے خارجیوں کا قلع قمع کرنے میں سرتوڑکوشش فرمائی۔

4: امام مالک کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت علی رضی اللہ نے سب کے سامنے ایک حقیقت واضح کرنے کے لئے بار بار قسم کے ساتھ جواب دیا، یہ ضرورت کے مطابق تھا، لیکن اس سے نہ سمجھ لیا جائے کہ کسی عام سی بات کو اس طرح کوئی پوچھے تو جواب دینا ضروری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4768   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2462  
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جب میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناؤں، تو آسمان سے گر پڑنا (تباو برباد ہونا) مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں آپﷺ کی طرف ایسی بات منسوب کروں؟ جو آپﷺ نے نہیں فرمائی۔ اور جب میں آپس کی بات کروں تو جنگ ایک چال اور تدبیر ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اخیر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی کم عمر کم عقل بظاہر مخلوق کی بہترین بات کہیں گے قرآن پڑھیں گے جو ان کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2462]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

خوارج کا ظہور مختلف ادوار میں ہوا ہے اور آئندہ بھی ہو گا یہ قرآن کے نام سے انتہا پسندی کرتے ہیں اپنے پہلے ظہور میں انہوں نے ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ﴾ کا نعرہ بلند کر کے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف خروج کیا تھا۔

(الْحَرْبُ خُدْعَةٌ)
لڑائی ایک چال اورخفیہ تدبیر ہے۔
جو گروہ اور جماعت بہتر چال اورعمدہ تدبیراختیار کر لیتی ہے وہ کامیاب ہوتی ہے دشمن کی چال اور تدبیر سے کسی وقت بھی غافل نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ آج کل مسلمان یہود وہنود کی چالوں سے غافل ہو کر ان کے نرغہ میں ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2462   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2467  
زید بن وہب جہنی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: کہ وہ اس لشکر میں شامل تھے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا (اور)خوارج کی طرف روانہ ہوا تھا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: لو گو!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر تے ہو ئے سنا:"میری امت سے کچھ لو گ نکلیں گے وہ (اس طرح) قرآن پڑھیں گے کہ تمھا ری قراءت ان کی قراءت کے مقابلے میں کچھ نہ ہو گی اور نہ تمھاری نمازوں کی ان کی نمازوں کے مقابلے میں کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2467]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
السرح:
السارح،
السارحة،
چرنے والے مویشی،
(2)
نزلني نزلا:
یعنی نزلني منزلا منزلا،
ایک ایک پڑاؤ کا تذکرہ کیا۔
(3)
قنطرة:
پل جس کا نام دبزجان تھا،
جہاں حضرت علی نے خطاب فرمایا۔
(4)
جفون:
جفن کی جمع ہے میان۔
(5)
وحوا برماحهم،
اپنے نیزے دور پھینک دیے تاکہ تلواریں حائل کریں۔
(6)
شجرهم الناس:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی ان پر پل پڑے،
اور خوارج ڈھیر ہو کر ایک دوسرے پر گرنے لگے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2467   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3611  
3611. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں تو آپ پر جھوٹ بولنے سے مجھ کو یہ زیادہ محبوب ہے کہ میں آسمان سے گر جاؤں۔ اور جب میں تم سے وہ باتیں کروں جو میرے اور تمھارے درمیان ہوتی ہیں تو (کوئی نقصان نہیں کیونکہ)لڑائی ایک پُر فریب چال کا نام ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آخر زمانہ میں کچھ نو عمر بے وقوف پیدا ہوں گے جو زبان سے بہترین خلائق کی باتیں کریں گے لیکن اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جا تا ہے اور ایمان ان کے حلق کے نیچے اترے گا۔ ایسے لوگوں سے تمھاری جہاں ملاقات ہو تو انھیں قتل کرنے کی کوشش کرنا کیونکہ قیامت کے ان اس شخص کو ثواب ملے گا جو ان کو قتل کرے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3611]
حدیث حاشیہ:
کہیں گے قرآن پرچلو، قرآن کی آیتیں پڑھیں گے، ان کا معنی غلط کریں گے، ان سے خارجی مردود مراد ہیں۔
یہ لوگ جب نکلے تو حضرت علی ؓ سے کہتے تھے کہ قرآن پر چلو۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّٰهِ﴾ (الأنعام: 57/6)
تم نے آدمیوں کو کیسے حکم مقرر کیا ہے اور اس بنا پر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ہردو کی تکفیر کرتے تھے۔
حضرت علی ؓ نے فرمایا:
''کلمة حق أرید بھا الباطل'' یعنی آیت قرآن تو برحق ہے مگر جو مطلب انہوں نے سمجھا ہے وہ غلط ہے۔
جتنے گمراہ فرقے ہیں وہ سب اپنی دانست میں قرآن سے دلیل لاتے ہیں مگر ان کی گمراہی اس سے کھل جاتی ہے کہ قرآن کی تفسیر اس طرح نہیں کرتے جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے ماثور ہے جن پر قرآن اترا تھا اور جو اہل زبان تھے۔
یہ کل کے لونڈے قرآن سمجھ گئے اور صحابہ اور تابعین اور خود پیغمبر صاحب جن پر قرآن اترا تھا انہوں نے نہیں سمجھا، یہ بھی کوئی بات ہے۔
آج کل کے اہل بدعت کا بھی یہی حال ہے جو آیات قرآنی سے اپنے عقائد باطلہ کے اثبات کے لیے دلائل پیش کرکے آیات قرآنی کے معانی ومطالب مسخ کرکے رکھ دیتے ہیں۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3611   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5057  
5057. سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: آخر زمانے میں نوجوان مگر بے وقوف ظاہر ہوں گے، وہ مخلوق سے بہترین ذات کا قول ذکر کریں گے لیکن وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے، جیسے تیر، شکار کو پار کر کے نکل جاتا ہے، ایمان ان کے حلق سے نیچےنہیں اترے گا، تم جہاں بھی انہیں پاؤ وہیں قتل کر دو۔ ان کو قتل کرنے کا قیامت کے دن اجر ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5057]
حدیث حاشیہ:
خارجی مراد ہیں جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا اور آیات قرآنی کا بے محل استعمال کرکے مسلمانوں میں فتنہ برپا کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5057   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3611  
3611. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں تو آپ پر جھوٹ بولنے سے مجھ کو یہ زیادہ محبوب ہے کہ میں آسمان سے گر جاؤں۔ اور جب میں تم سے وہ باتیں کروں جو میرے اور تمھارے درمیان ہوتی ہیں تو (کوئی نقصان نہیں کیونکہ)لڑائی ایک پُر فریب چال کا نام ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آخر زمانہ میں کچھ نو عمر بے وقوف پیدا ہوں گے جو زبان سے بہترین خلائق کی باتیں کریں گے لیکن اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جا تا ہے اور ایمان ان کے حلق کے نیچے اترے گا۔ ایسے لوگوں سے تمھاری جہاں ملاقات ہو تو انھیں قتل کرنے کی کوشش کرنا کیونکہ قیامت کے ان اس شخص کو ثواب ملے گا جو ان کو قتل کرے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3611]
حدیث حاشیہ:

جس طرح ایک تیر کمان سے نکلنے کے بعد شکار کو چیرتا ہواگزر جانے پر بھی بالکل صاف شفاف نظر آتا ہے۔
حالانکہ اس سے شکار زخمی ہو کر خاک و خون میں تڑپ رہا ہوتا ہے۔
چونکہ اس نے نہا یت تیزی کے ساتھ اپنا فاصلہ طے کیا ہوتا ہے۔
اس لیے خون اور گوبر وغیرہ کا کوئی نشان اس کے کسی حصے پر دکھائی نہیں دیتا۔
اسی طرح وہ لوگ بھی دین سے کوسوں دور ہوں گے اور اپنی بےدینی سے جسداسلام کو بری طرح زخمی کریں گے لیکن بے دینی کے اثرات ان میں کہیں نظر نہیں آئیں گے بظاہر دینداری کا لبادہ اوڑھ رکھا ہوگا اور لوگوں کو قرآن پر چلنے کی دعوت دیں گے قرآنی ایات پڑھیں گے لیکن یہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔

اس پیش گوئی سے خارجی مراد ہیں اور ان کے فتنہ تکفیر کی طرف اشارہ ہے۔
وہ کہتے تھے۔
﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّٰهِ﴾ (الأنعام: 57/6)
فیصلہ کرنا اللہ کا اختیار ہے لیکن اس آیت کریمہ کی آڑ میں وہ حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی تکفیر کرتے تھے۔
حضرت علی ؓ ان کے جواب میں فرمایا کرتے تھے۔
کہ قرآنی آیت مبنی برحقیقت ہے مگر اسے غلط معنی پہنائے گئے ہیں جتنے بھی گمراہ فرقے ہیں وہ سب اپنی سمجھ کے مطابق قرآن سے دلیل لاتے ہیں مگر اس کی تفسیر کرتے وقت ان کی گمراہی کھل جاتی ہے۔
وہ اس کے معنی اپنی مرضی سے متعین کرتے ہیں جو سلف صالحین سے منقول نہیں ہوتے۔
بہرحال خوارج کا دین میں داخل ہونا اور اس سے تیزی کے ساتھ نکلنا کہ انھیں کچھ حاصل نہ ہو ایسے ہے جیسے تیر شکار میں داخل ہوا پھر نکل گیا خون اور گوبر سے کوئی چیز بھی اس کے ساتھ نہ لگ سکی کیونکہ اس نے بڑی تیزی سے اپنا فاصلہ طے کیا۔
ایسا ہی یہ لوگ بڑی تیزی کے ساتھ دین سے نکل گئے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3611   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.