حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے لوگو!اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک (مال) کے سوا (کوئی مال) قبول نہیں کرتا اللہ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اے پیغمبران کرام! پاک چیز یں کھاؤ اور نیک کام کرو جو عمل تم کرتے ہو میں اسے اچھی طرح جا ننے والا ہوں اور فرمایا: اے مومنو!جو پاک رزق ہم نے تمھیں عنایت فرمایا ہے اس میں سے کھاؤ۔پھر آپ نے ایک آدمی کا ذکر کیا: جو طویل سفر کرتا ہے بال پرا گندا اور جسم غبار آلود ہے۔ (دعا کے لیے) آسمان کی طرف اپنے دو نوں ہاتھ پھیلاتا ہے، اے میرے رب! اے میرے رب! جبکہ اس کا کھانا حرام کا ہے اس کا پینا حرا م کا ہے اس کا لباس حرا م کا ہے اور اس کو غذا حرام کی ملی ہے تو اس کی دعا کہاں سے قبو ل ہو گی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے لوگو! اللہ تعالیٰ پاک ہے (ہر نقص و کمزوری سے) اور پاک مال ہی قبول فرماتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس بات کا حکم دیا ہے جس بات کا حکم رسولوں کو دیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور صحیح و درست کام کرو۔ (نیک کام کرو) جو کچھ تم کرتے ہو میں اس سے آگا ہوں (جانتا ہوں)مومنون آیت 51 اور فرمایا: اے مومنو! جو پاک رزق ہم نے تمھیں عنایت فرمایا ہے اس سے کھاؤ۔ بقرہ آیت 172۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے آدمی کا تذکرہ فرمایا جو طویل سفر کرتا ہے پرا گندہ بال غبارآلود آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے (اور کہتا ہے) اے میرے رب! اے میرے رب! حالانکہ اس کاکھانا حرام پینا حرام، اس کا لباس حرام اور اس کو غذا حرام کی دی گئی تو اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔؟
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2346
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) فلُوَّ: بچھیرا، گھوڑے کا بچہ۔ (2) فصيل: ٹوڈا، اونٹ کا بچہ۔ (3) قلوص: نوجوان اونٹ۔ (4) اشعث: پراگندہ بال۔ (5) اغبر: غبار آلود جسم۔ (6) غذي: پالا پوسا گیا۔ فوائد ومسائل: (1) اللہ تعالیٰ ہر عیب و نقص اور کمزوری سے پاک صاف ہے اس لیے پاک صاف چیز کو قبول فرماتا ہے۔ ناجائز اور حرام مال اس کے ہاں شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لیے ناپاک اور حرام مال صدقہ کرنا اپنے آپ سے دھوکا اور فراڈ ہےکیونکہ اللہ کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیرو کاروں کو پاک مال کھانے اور اچھے عمل کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ پاک رزق کھانے سے ہی نیک عمل کی تعریفیں ملتی ہے (اور صدقہ بھی نیک کام ہے اور اسے وہی کر سکتا ہے جس کا مال حلال اور پاک ہو گا۔ )(2) اللہ تعالیٰ بے نیاز اور غنی ہے وہ صدقات و خیرات کا محتاج نہیں ہے۔ وہ انسان کی بھلائی اور بہتری کے لیے اس کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ قیامت کے دن ایک کھجور بھی جو اخلاص اور نیک نیتی سے صحیح اور برمحل پاک مال سے صرف کی گئی ہے ایک پہاڑ کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑھ کرانسان کے لیے نفع رساں ہو۔ (3) جس طرح ناپاک اور حرام مال اللہ کے ہاں قبول نہیں ہے اسی طرح ناپاک بندہ جس کو حرام مال سے پالا پوسا گیا اور وہ حرام مال بھی کھاتا پیتا اور پہنتا ہے اللہ کے ہاں بار یابی کا شرف حاصل نہیں کر سکتا۔ اور ایسا انسان اپنی دعا کی قبولیت کی امید نہیں رکھ سکتا قبولیت دعا کے لیے کمائی کا پاک اور جائز ہونا بنیادی شرط ہے استدراج (ڈھیل کی مصلحت) کے طور پر بظاہر اگر کسی کی دعا قبول کر لی جاتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے جس کا مداراس کی حکمت پر ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2346
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2989
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”لوگو! اللہ پاک ہے اور حلال و پاک چیز کو ہی پسند کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو انہیں چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ نے فرمایا: «يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم»۱؎ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے «يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم»۲؎(پھر) آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے (میرے رب! اے میرے رب!) ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2989]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے رسولو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں (المومنون: 51)
2؎: اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ، پیو (البقرۃ: 172)
3؎: معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت کے لیے جہاں بہت ساری شرطیں ہیں، انہی میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ انسان کا ذریعہ معاش حلال ہو، کھانے، پینے، پہننے اور اوڑھنے سے متعلق جو بھی چیزیں ہیں وہ سب حلال طریقے سے حاصل کی جا رہی ہوں جبھی دعا کے قبول ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2989