(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا عيسى بن يونس، عن هشام بن حسان، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا ذرع الصائم القيء وهو لا يريده، فلا قضاء عليه، وإذا استقاء، فعليه القضاء". قال عيسى: زعم اهل البصرة ان هشاما اوهم فيه , فموضع الخلاف ههنا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا ذَرَعَ الصَّائِمَ الْقَيْءُ وَهُوَ لَا يُرِيدُهُ، فَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ، وَإِذَا اسْتَقَاءَ، فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ". قَالَ عِيسَى: زَعَمَ أَهْلُ الْبَصْرَةِ أَنَّ هِشَامًا أَوْهَمَ فِيهِ , فَمَوْضِعُ الْخِلَافِ هَهُنَا.
سیدنا ابوہريرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب روزے دار کو خود بخود قے آ جائے تو اس پر کوئی قضا نہیں، اور قصداً قے کرے تو اس پر قضاء ہے۔“ عیسیٰ بن یونس نے کہا: اہل بصرہ کا خیال ہے کہ اس حدیث میں ہشام بن حسان کو وہم ہوا ہے جو اختلاف کا سبب ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1770]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2380]، [ترمذي 720]، [ابن ماجه 1676]، [أبويعلی 6604]، [ابن حبان 3518]، [الموارد 907]۔ اہلِ بصرہ کا قول مردود ہے کیونکہ ہشام بن حسان ثقات اور اثبات میں سے ہیں، ابن سیرین سے روایت کرنے میں وہ اثبت الناس ہیں، لہٰذا یہ حدیث اور اس کا حکم بالکل صحیح ہے۔