(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا همام، حدثنا ابو عمران الجوني، عن عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا ابا ذر، كيف تصنع إذا ادركت امراء يؤخرون الصلاة عن وقتها؟ قلت: ما تامرني يا رسول الله؟ قال: "صل الصلاة لوقتها، واجعل صلاتك معهم نافلة". قال ابو محمد: ابن الصامت هو: ابن اخي ابي ذر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَا أَبَا ذَرٍّ، كَيْفَ تَصْنَعُ إِذَا أَدْرَكْتَ أُمَرَاءَ يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا؟ قُلْتُ: مَا تَأْمُرُنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: "صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، وَاجْعَلْ صَلَاتَكَ مَعَهُمْ نَافِلَةً". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: ابْنُ الصَّامِتِ هُوَ: ابْنُ أَخِي أَبِي ذَرٍّ.
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر! تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے امیر ہوں گے جو نماز آخر وقت میں پڑھیں گے؟“ عرض کیا: آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ”تم نماز اس کے (اول) وقت میں ادا کر لینا، اور ان کے ساتھ نفلی نماز کی نیت سے نماز پڑھ لیا کرنا۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: عبداللہ بن الصامت ابوذر کے بھتیجے ہیں۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1260 سے 1262) ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نماز اوّل وقت میں ادا کی جائے، اگر امام یا امیر اس کو آخر وقت میں تاخیر سے پڑھیں تو اگر مسجد میں ہوں تو ان کے ساتھ نفلی نماز کی نیت سے دوبارہ نماز پڑھ لیں۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ یہ نہ کہنا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے اس لئے کہ اس سے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1264]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 648، وما قبله وبعده]، [أبوداؤد 431]، [نسائي 858]، [ابن ماجه 1252]