حدثنا سعيد بن عفير قال: حدثني يحيى بن ايوب، عن موسى بن علي، عن ابيه، عن عمرو بن العاص قال: إذا كثر الاخلاء كثر الغرماء، قلت لموسى: وما الغرماء؟ قال: الحقوق.حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: إِذَا كَثُرَ الأَخِلاَّءُ كَثُرَ الْغُرَمَاءُ، قُلْتُ لِمُوسَى: وَمَا الْغُرَمَاءُ؟ قَالَ: الْحُقُوقُ.
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب دوست زیادہ ہوں تو غرماء بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ یحییٰ بن ایوب کہتے ہیں: میں نے موسیٰ سے پوچھا: غرماء کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا: حقوق۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى الدنيا فى العزلة: 150 و الخطابي فى العزلة، ص: 40»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 855
فوائد ومسائل: پہلی حدیث میں واللہ اعلم، یہ بتانا مقصود ہے کہ بڑوں کے ساتھ چلنے کا ادب یہ ہے کہ ان کا کہا مانا جائے اور اگر وہ کسی کو سوار کرنے کا حکم دیں تو اس کو بجا لایا جائے۔ دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دوست زیادہ ہوں تو اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں اور حقوق بھی اسی قدر ہوتے ہیں اس لیے انسان کو ادا کرنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ کس کو دے اور کسے محروم کرے تو اس میں بڑوں اور اہل علم و فضل کو مقدم رکھے۔ اس طرح اس کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 855