حدثنا عمرو بن مرزوق، قال: اخبرنا شعبة، عن عمارة بن ابي حفصة، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: عجبت للكلاب والشاء، إن الشاء يذبح منها في السنة كذا وكذا، ويهدى كذا وكذا، والكلب تضع الكلبة الواحدة كذا وكذا والشاء اكثر منها.حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: عَجِبْتُ لِلْكِلاَبِ وَالشَّاءِ، إِنَّ الشَّاءَ يُذْبَحُ مِنْهَا فِي السَّنَةِ كَذَا وَكَذَا، وَيُهْدَى كَذَا وَكَذَا، وَالْكَلْبُ تَضَعُ الْكَلْبَةُ الْوَاحِدَةُ كَذَا وَكَذَا وَالشَّاءُ أَكْثَرُ مِنْهَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مجھے کتے اور بکریوں کے معاملے پر تعجب ہوتا ہے، بلاشبہ بکریاں سال میں اتنی ذبح کی جاتی ہیں اور کثیر مقدار میں قربانی بھی کی جاتی ہیں۔ اور ایک کتیا ایک وقت میں کتنے کتنے بچے جنتی ہے، مگر اس کے باوجود بکریاں اس سے زیادہ ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 575
فوائد ومسائل: (۱)اس روایت کا تعلق بظاہر سابقہ باب سے لگتا ہے مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مویشی کثرت سے پالنے چاہئیں۔ (۲) اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق پر غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ ایمان و یقین میں اضافہ ہو۔ (۳) سلسلہ توالد کے اعتبار سے ایک کتیا کے بچے زیادہ ہوتے اور کسی کام بھی نہیں آتے اور بکریوں کی کھپت زیادہ ہونے اور پیداوار کم ہونے کے باوجود ان کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ ان کی برکت کی دلیل ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 575