حدثنا اصبغ قال: اخبرني ابن وهب قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، ان سالما اخبره، ان عبد الله بن عمر اخبره، ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال عام الرمادة، وكانت سنة شديدة ملمة، بعد ما اجتهد عمر في إمداد الاعراب بالإبل والقمح والزيت من الارياف كلها، حتى بلحت الارياف كلها مما جهدها ذلك، فقام عمر يدعو فقال: ”اللهم اجعل رزقهم على رءوس الجبال“، فاستجاب الله له وللمسلمين، فقال حين نزل به الغيث: الحمد لله، فوالله لو ان الله لم يفرجها ما تركت باهل بيت من المسلمين لهم سعة إلا ادخلت معهم اعدادهم من الفقراء، فلم يكن اثنان يهلكان من الطعام على ما يقيم واحدا.حَدَّثَنَا أَصْبَغُ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَالِمًا أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عَامَ الرَّمَادَةِ، وَكَانَتْ سَنَةً شَدِيدَةً مُلِمَّةً، بَعْدَ مَا اجْتَهَدَ عُمَرُ فِي إِمْدَادِ الأعْرَابِ بِالإِبِلِ وَالْقَمْحِ وَالزَّيْتِ مِنَ الأَرْيَافِ كُلِّهَا، حَتَّى بَلَحَتِ الأَرْيَافُ كُلُّهَا مِمَّا جَهَدَهَا ذَلِكَ، فَقَامَ عُمَرُ يَدْعُو فَقَالَ: ”اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَهُمْ عَلَى رُءُوسِ الْجِبَالِ“، فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ وَلِلْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ حِينَ نَزَلَ بِهِ الْغَيْثُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، فَوَاللَّهِ لَوْ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُفْرِجْهَا مَا تَرَكْتُ بِأَهْلِ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ لَهُمْ سَعَةٌ إِلاَّ أَدْخَلْتُ مَعَهُمْ أَعْدَادَهُمْ مِنَ الْفُقَرَاءِ، فَلَمْ يَكُنِ اثْنَانِ يَهْلِكَانِ مِنَ الطَّعَامِ عَلَى مَا يُقِيمُ وَاحِدًا.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قحط کے سال جو سخت تنگی اور مصیبت کا سال تھا، انہوں نے دیہاتیوں کی بہت زیادہ مدد کی۔ انہیں اونٹ، گندم، تیل اور دیگر ضرورت کی چیزیں دیں۔ حتی کہ دیہات کے لوگ اس مشکل سے نکل آئے جس میں پڑے ہوئے تھے، اور خوشحال ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ الٰہی میں یوں دعا کی: ”اے اللہ! ان کا رزق پہاڑوں کی چوٹیوں پر پیدا فرما۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کی اور مسلمانوں کی دعا قبول فرمائی۔ جب بارش نازل ہوئی تو انہوں نے فرمایا: الحمد للہ، اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ آسانی نہ فرماتا تو میں مسلمانوں کے کشادہ حال گھرانوں کے ساتھ اتنے ہی فقراء لوگ شامل کر دیتا۔ اس طرح اس کھانے پر دو آدمی ہلاک نہ ہوتے جو ایک آدمی کو کافی ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن شبة فى تاريخ المدينة: 738/2»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 562
فوائد ومسائل: (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تمہیں کمزوروں کی دعاؤں اور اخلاص کی وجہ سے رزق عطا فرماتا ہے۔ اس لیے اہل ثروت کو چاہیے کہ وہ معاشرے کے کمزور لوگوں کو محرومی سے بچائیں۔ یوں معاشرہ امن اور ہمدردی کا گہوارہ بن جائے گا۔ (۲) حاکم وقت تنگ حالات میںلوگوں پر زکاۃ کے علاوہ بھی اتنا بوجھ ڈال سکتا ہے جس کے وہ متحمل ہوں بشرطیکہ مقصد لوگوں کی اصلاح ہو اپنی تجوریاں بھرنا نہ ہو۔ (۳) قرآن مجید نے ایسے حالات میں لوگوں کے بجھتے چولہوں کے جلانے کو گھاٹی عبور کرنا کہا ہے۔ اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((السَّاعِی عَلَی الْأرْمَلَةِ والْمِسْکین کَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِیلِ اللّٰهِ))(صحیح البخاري، ح:۵۳۵۳) ”بے سہارا اور مسکین قسم کے لوگوں کی خاطر کام کرنے والا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔“
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 562