حدثنا الحكم بن نافع، قال: اخبرنا شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري قال: اخبرني محمد بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، ان عائشة قالت: ارسل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاستاذنت والنبي صلى الله عليه وسلم مع عائشة رضي الله عنها في مرطها، فاذن لها فدخلت، فقالت: إن ازواجك ارسلنني يسالنك العدل في بنت ابي قحافة، قال: ”اي بنية، اتحبين ما احب؟“ قالت: بلى، قال: ”فاحبي هذه“، فقامت فخرجت فحدثتهم، فقلن: ما اغنيت عنا شيئا فارجعي إليه، قالت: والله لا اكلمه فيها ابدا. فارسلن زينب زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فاستاذنت، فاذن لها، فقالت له ذلك، ووقعت في زينب تسبني، فطفقت انظر: هل ياذن لي النبي صلى الله عليه وسلم، فلم ازل حتى عرفت ان النبي صلى الله عليه وسلم لا يكره ان انتصر، فوقعت بزينب، فلم انشب ان اثخنتها غلبة، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: ”اما إنها ابنة ابي بكر.“حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي مِرْطِهَا، فَأَذِنَ لَهَا فَدَخَلَتْ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي بِنْتِ أَبِي قُحَافَةَ، قَالَ: ”أَيْ بُنَيَّةُ، أَتُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ؟“ قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: ”فَأَحِبِّي هَذِهِ“، فَقَامَتْ فَخَرَجَتْ فَحَدَّثَتْهُمْ، فَقُلْنَ: مَا أَغْنَيْتِ عَنَّا شَيْئًا فَارْجِعِي إِلَيْهِ، قَالَتْ: وَاللَّهِ لاَ أُكَلِّمُهُ فِيهَا أَبَدًا. فَأَرْسَلْنَ زَيْنَبَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ، فَأَذِنَ لَهَا، فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ، وَوَقَعَتْ فِيَّ زَيْنَبُ تَسُبُّنِي، فَطَفِقْتُ أَنْظُرُ: هَلْ يَأْذَنُ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ أَزَلْ حَتَّى عَرَفْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَكْرَهُ أَنْ أَنْتَصِرَ، فَوَقَعْتُ بِزَيْنَبَ، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ أَثْخَنْتُهَا غَلَبَةً، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: ”أَمَا إِنَّهَا ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ انہوں نے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت دی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی چادر میں استراحت فرما تھے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اندر داخل ہوئیں تو انہوں نے کہا: بلاشبہ آپ کی بیویوں نے مجھے بھیجا ہے، وہ آپ سے بنت ابی قحافہ کے بارے میں عدل کرنے کا سوال کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیاری بیٹی! کیا تم اس سے محبت کرتی ہو جس سے میں محبت کرتا ہوں؟“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اس، یعنی عائشہ سے محبت کرو۔“ وہ اٹھیں اور جا کر ساری بات بتا دی۔ انہوں نے کہا: آپ نے تو ہمارا کام نہیں کیا، لہٰذا دوبارہ جائیں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کی قسم میں ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات نہیں کروں گی۔ پھر انہوں نے ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو بھیجا۔ انہوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی بات کی اور ساتھ ہی مجھے بھی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے برا بھلا کہا۔ میں چپ سادھ کر دیکھتی رہی کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیتے ہیں۔ میں مسلسل خاموش رہی حتی کہ میں سمجھ گئی کہ اب اگر میں نے بدلہ لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند نہیں کریں گے۔ پھر میں نے بھی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو برا بھلا کہا اور انہیں لمحوں میں خاموش کرا دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ صورت حال دیکھ کر مسکرائے، پھر فرمایا: ”کیوں! یہ بھی ابوبکر کی بیٹی ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب فضائل الصحابة: 2442 و البخاري: 2581 و النسائي: 3944»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 559
فوائد ومسائل: (۱)ان روایات سے معلوم ہوا کہ مظلوم اپنا بدلہ لے سکتا ہے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بھی پتہ چلا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان کا کیا مقام و مرتبہ تھا۔ ان پر طعن کرنے والوں کو اپنے ایمان کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔ (۲) امہات المومنین سمجھتی تھیں کہ ہماری نجی زندگی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے عدل نہیں کرتے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ حقیقت حال یہ تھی کہ جن چیزوں، مثلاً باری مقرر کرنا، خرچ دینا وغیرہ میں آپ مکمل انصاف کرتے تھے، محبت کیونکہ اختیاری چیز نہیں تھی اس لیے آپ نے ان کے اعتراض کو کوئی اہمیت نہ دی۔ (۳) سوکنوں کا باہم الجھنا فطری غیرت کی بنا پر ہے اس لیے سیدہ عائشہ اور زینب رضی اللہ عنہما کی نوک جھوک ان کے ایمان پر اثر انداز نہیں ہوتی اور نہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی ہی ہے بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کا جھگڑا ہے۔ (۴) اس جھگڑے کا سبب یہ تھا کہ جس دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ہوتی تو لوگ تحائف زیادہ بھیجتے۔ امہات المومنین نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ لوگوں سے کہیں کہ وہ سب بیویوں کے ہاں برابر تحائف بھیجیں تو آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ جس کے لیے بعد ازاں سیدہ فاطمہ کو اور پھر زینب رضی اللہ عنہا کو بھیجا گیا۔ (۵) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جس سے جتنی محبت تھی اس اعتبار سے ہمیں بھی محبت کرنی چاہیے۔ جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محبت کریں اور اپنی لخت جگر کو بھی اس سے محبت کا حکم دیں اس سے بغض رکھنے والا اہل بیت کا محب کیسے ہوسکتا ہے!
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 559