حدثنا إسحاق، قال: اخبرنا النضر بن شميل قال: اخبرنا حماد بن سلمة، عن ثابت البناني، عن ابي رافع، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ”يقول الله: استطعمتك فلم تطعمني، قال: فيقول: يا رب، وكيف استطعمتني ولم اطعمك، وانت رب العالمين؟ قال: اما علمت ان عبدي فلانا استطعمك فلم تطعمه؟ اما علمت انك لو كنت اطعمته لوجدت ذلك عندي؟ ابن آدم، استسقيتك فلم تسقني، فقال: يا رب، وكيف اسقيك وانت رب العالمين؟ فيقول: إن عبدي فلانا استسقاك فلم تسقه، اما علمت انك لو كنت سقيته لوجدت ذلك عندي؟ يا ابن آدم، مرضت فلم تعدني، قال: يا رب، كيف اعودك، وانت رب العالمين؟ قال: اما علمت ان عبدي فلانا مرض، فلو كنت عدته لوجدت ذلك عندي؟ او وجدتني عنده؟“حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”يَقُولُ اللَّهُ: اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمَنِي، قَالَ: فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ اسْتَطْعَمْتَنِي وَلَمْ أُطْعِمْكَ، وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلانًا اسْتَطْعَمَكَ فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ ابْنَ آدَمَ، اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي، فَقَالَ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَيَقُولُ: إِنَّ عَبْدِي فُلانًا اسْتَسْقَاكَ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ كُنْتَ سَقَيْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ يَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ، كَيْفَ أَعُودُكَ، وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلانًا مَرِضَ، فَلَوْ كُنْتَ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ أَوْ وَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ روز قیامت فرمائے گا: بندے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا لیکن تو نے مجھے کھلایا نہیں۔ بندہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھ سے کیسے کھانا مانگا تھا اور میں نے تجھے کھلایا نہیں تھا جبکہ تو تو رب العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے ایسے نہیں کھلایا۔ تو نہیں جانتا ہے کہ اگر تو اس کو کھلاتا تو اس کو میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے مجھے نہ پلایا۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں تجھے کیسے پلاتا جبکہ تو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے نہ پلایا۔ کیا تجھے معلوم نہیں اگر تو اسے پانی پلاتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا؟ اے ابن آدم! میں بیمار ہوا تو تو نے میری تیمارداری بھی نہ کی۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں کیسے تیری تیمارداری کرتا جبکہ تو تمام جہانوں کا رب ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا، اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا، یا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة و الأدب: 2569»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 517
فوائد ومسائل: مذکورہ اعمال کی فضیلت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ان کی نسبت اپنی طرف کی ہے مطلب یہ ہے کہ مریض کی تیمار داری، بھوکے کو کھانا کھلانا اور پیاسے کو پانی پلانا جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہو نہایت بابرکت عمل ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 517