حدثنا محمد بن سلام، قال: حدثنا عبد الوهاب الثقفي، قال: حدثنا خالد الحذاء، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، دخل على اعرابي، يعوده، فقال: ”لا باس عليك، طهور إن شاء الله“، قال: قال الاعرابي: بل هي حمى تفور، على شيخ كبير، كيما تزيره القبور، قال: ”فنعم إذا.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ، يَعُودُهُ، فَقَالَ: ”لا بَأْسَ عَلَيْكَ، طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ“، قَالَ: قَالَ الأَعْرَابِيُّ: بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ، عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ، كَيْمَا تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، قَالَ: ”فَنَعَمْ إِذًا.“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیہاتی کی عیادت کرنے کے لیے اس کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے کوئی حرج اور ڈر نہیں، یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے، ان شاء اللہ۔“ راوی کہتے ہیں کہ اس دیہاتی نے کہا: نہیں بلکہ یہ بخار ہے جو بوڑھے شیخ پر جوش مار رہا ہے تاکہ اسے قبرستان پہنچا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب ایسا ہی ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التوحيد، باب فى المشية و الإرادة: 7470، 3616 و النسائي فى الكبرىٰ: 10811 - انظر التعليقات الحسان: 2948»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 514
فوائد ومسائل: (۱)اس سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت اور علماء کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی عیادت کریں خواہ وہ جاہل ہی ہوں۔ اس میں ان کا بڑاپن ہے۔ اسی طرح بوقت تیمار داری مریض کے لیے دعا کرنا اور تسلی دینا بھی مستحب اور مسنون ہے۔ (۲) بیماری کو اس نیت سے برداشت کرنا چاہیے کہ یہ گناہوں کا کفارہ بنے گی، تاہم اگر کوئی شخص اس پر یقین نہ رکھے تو یہ اس کے لیے کفارہ نہیں ہوگی بلکہ جیسا اس کا گمان ہوگا ویسے ہوگا۔ اس لیے بیماری کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ (۳) بعض روایات میں ہے کہ وہ اعرابی اگلے دن شام سے پہلے پہلے فوت ہوگیا۔ (صحیح الادب المفرد)اس لیے مریض کو چاہیے کہ وہ اچھی وصیت قبول کرے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 514