حدثنا موسى، قال: حدثنا حماد، عن حميد، عن الحسن، عن عبد الله بن مغفل، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”إن الله رفيق يحب الرفق، ويعطي عليه ما لا يعطي على العنف.“حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَيْهِ مَا لاَ يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ.“
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ لطیف و نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ دیتا ہے جو سختی پر عطا نہیں کرتا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب: 4807»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 472
فوائد ومسائل: (۱)اللہ تعالیٰ کی نرمی یہ ہے کہ وہ بندوں کا فوراً مواخذہ نہیں کرتا اور نافرمانوں کو فوراً سزا دینے کی بجائے انہیں مہلت دیتا ہے۔ (۲) نرمی سے اعمال صالحہ کی توفیق ملتی ہے اور معاملات درست ہوتے ہیں اور کامیابی و کامرانی نصیب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اجر و ثواب ملتا ہے۔ اسی طرح طلب رزق میں بھی نرمی اور تنگ دست پر آسانی کرنے سے اللہ تعالیٰ جس قدر نوازتا ہے کسی دوسری نیکی پر اس قدر عطا نہیں کرتا اور نہ سختی کرنے پر ہی اس قدر نوازا جاتا ہے بلکہ سختی انسان کو بدنما بنا دیتی ہے۔ (۳) جہاں نرمی اور سختی دونوں کرنی جائز ہوں وہاں نرمی سے کام لینا افضل ہے، البتہ جہاں سختی ضروری ہو، مثلاً حدود اللہ کے نفاذ میں تو وہاں نرمی کرنا ناجائز ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 472