حدثنا حرمي بن حفص، قال: حدثنا عبد الواحد، قال: حدثنا سعيد بن كثير بن عبيد قال: حدثني ابي قال: دخلت على عائشة ام المؤمنين رضي الله عنها، فقالت: امسك حتى اخيط نقبتي فامسكت فقلت: يا ام المؤمنين، لو خرجت فاخبرتهم لعدوه منك بخلا، قالت: ابصر شانك، إنه لا جديد لمن لا يلبس الخلق.حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ كَثِيرِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ: أَمْسِكْ حَتَّى أَخِيطَ نَقْبَتِي فَأَمْسَكْتُ فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، لَوْ خَرَجْتُ فَأَخْبَرْتُهُمْ لَعَدُّوهُ مِنْكِ بُخْلاً، قَالَتْ: أَبْصِرْ شَأْنَكَ، إِنَّهُ لاَ جَدِيدَ لِمَنْ لاَ يَلْبَسُ الْخَلَقَ.
حضرت کثیر بن عبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا: ذرا ٹھہرو میں اپنا پائجامہ سی لوں۔ حضرت کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں ٹھہر گیا اور کہا: ام المؤمنین! اگر میں باہر جا کر بتاؤں کہ آپ پرانا کپڑا سی رہی ہیں تو لوگ اسے آپ کی کنجوسی میں شمار کریں گے۔ انہوں نے فرمایا: سمجھ کر بات کرو، بات یہ ہے کہ جو پرانا کپڑا نہ پہنے اس کا نئے کپڑے میں کوئی حق نہیں۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه المصنف فى التاريخ الكبير: 207/7 و ابن أبى الدنيا فى إصلاح المال: 399»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 471
فوائد ومسائل: اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جو پرانا کپڑا نہیں پہنتا وہ اسراف اور فضول خرچ ہے اس لیے انسان کو اس مال کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔ سادگی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور ایمان کا حصہ ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو ہر دفعہ نیا کپڑا پہنتا ہو اس پر اس کی فضول خرچی کی وجہ سے ایسا وقت آجاتا ہے کہ اس کے پاس نیا پہننے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ میانہ روی اور سادگی ہی میں عزت ہے۔ امہات المومنین مال کی فراوانی کے بعد بھی سادہ زندگی گزارتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 471