حدثنا قتيبة، قال: حدثنا ابو بكر بن عياش، عن الاجلح، عن ابن ابي الهذيل قال: عاد عبد الله رجلا، ومعه رجل من اصحابه، فلما دخل الدار جعل صاحبه ينظر، فقال له عبد الله: والله لو تفقات عيناك كان خيرا لك.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الأَجْلَحِ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ قَالَ: عَادَ عَبْدُ اللهِ رَجُلاً، وَمَعَهُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ الدَّارَ جَعَلَ صَاحِبُهُ يَنْظُرُ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: وَاللَّهِ لَوْ تَفَقَّأَتْ عَيْنَاكَ كَانَ خَيْرًا لَكَ.
ابن ابی ہذیل رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کسی آدمی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب گھر میں داخل ہوئے تو وہ صاحب اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دی جاتیں تو یہ تیرے لیے زیادہ بہتر تھا۔
تخریج الحدیث: «حسن الإسناد موقوفًا: أخرجه هناد فى الزهد: 1421»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1305
فوائد ومسائل: (۱)مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھیں اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے بنائی ہیں اور تم انہیں معصیت میں استعمال کر رہے ہو۔ اس سے بہتر تھا تیری آنکھیں نہ ہوتیں۔ تم یہ گناہ تو نہ کرتے۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے گھر اجازت لے کر جانے کے بعد بھی نظروں کی حفاظت ضروری ہے۔ کسی کے گھر بے جا نظر دوڑانا پردہ داری کے خلاف ہے۔ (۳) دوست احباب اور شاگردوں کی دینی راہنمائی کرنا اور انہیں غلط کاموں سے روکنا اچھی دوستی کی علامت ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1305