حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا هشيم، عن إسماعيل بن سالم، عن حبيب بن ابي ثابت قال: كانوا يحبون إذا حدث الرجل ان لا يقبل على الرجل الواحد، ولكن ليعمهم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ: كَانُوا يُحِبُّونَ إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ أَنْ لاَ يُقْبِلَ عَلَى الرَّجُلِ الْوَاحِدِ، وَلَكِنْ لِيَعُمَّهُمْ.
حضرت حبیب بن ابی ثابت رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ پسند کرتے تھے کہ جب کوئی آدمی بیان کرے تو وہ کسی ایک آدمی کی طرف متوجہ نہ ہو، بلکہ عمومی خطاب کرے۔
تخریج الحدیث: «حسن الإسناد مقطوعًا: أخرجه أبوخيثمة فى العلم: 145 و ابن الجعد فى مسنده: 556 و أبونعيم فى الحلية: 61/5»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1304
فوائد ومسائل: سلف صالحین کا انداز گفتگو یہ تھا کہ جب وہ کسی مجلس میں بات کرتے تو کسی ایک آدمی کو خصوصی اہمیت اور توجہ نہ دیتے بلکہ عمومی گفتگو کرتے۔ کیونکہ کسی کو خصوصی توجہ دینے سے دوسروں کے دل میں حسد پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور اگر تنبیہ مقصود ہو تو بھی عمومی انداز میں گفتگو ہی بہتر ہے تاکہ وہ شخص بھری مجلس میں بے عزتی محسوس نہ کرے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز گفتگو بھی یہی تھا کہ جب کوئی تنبیہ کرنی ہوتی تو عمومی انداز میں کرتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے وغیرہ۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1304