حدثنا محمد بن عبد العزيز العمري، قال: حدثنا ضمرة بن ربيعة، عن بلال بن كعب العكي قال: زرنا يحيى بن حسان في قريته، انا وإبراهيم بن ادهم، وعبد العزيز بن قرير، وموسى بن يسار، فجاءنا بطعام، فامسك موسى، وكان صائما، فقال يحيى: امنا في هذا المسجد رجل من بني كنانة من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يكنى ابا قرصافة اربعين سنة، يصوم يوما ويفطر يوما، فولد لابي غلام، فدعاه في اليوم الذي يصوم فيه فافطر، فقام إبراهيم فكنسه بكسائه، وافطر موسى قال ابو عبد الله: ابو قرصافة اسمه جندرة بن خيشنة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعُمَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ بِلاَلِ بْنِ كَعْبٍ الْعَكِّيِّ قَالَ: زُرْنَا يَحْيَى بْنَ حَسَّانَ فِي قَرْيَتِهِ، أَنَا وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَدْهَمَ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ قَرِيرٍ، وَمُوسَى بْنُ يَسَارٍ، فَجَاءَنَا بِطَعَامٍ، فَأَمْسَكَ مُوسَى، وَكَانَ صَائِمًا، فَقَالَ يَحْيَى: أَمَّنَا فِي هَذَا الْمَسْجِدِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَنَّى أَبَا قِرْصَافَةَ أَرْبَعِينَ سَنَةً، يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، فَوُلِدَ لأَبِي غُلاَمٌ، فَدَعَاهُ فِي الْيَوْمِ الَّذِي يَصُومُ فِيهِ فَأَفْطَرَ، فَقَامَ إِبْرَاهِيمُ فَكَنَسَهُ بِكِسَائِهِ، وَأَفْطَرَ مُوسَى قَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ: أَبُو قِرْصَافَةَ اسْمُهُ جَنْدَرَةُ بْنُ خَيْشَنَةَ.
بلال بن کعب عکی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں اور ابراہیم بن ادہم، عبدالعزیز بن قریر اور موسیٰ بن یسار چاروں نے یحییٰ بن حسان رحمہ اللہ کی ان کی بستی میں زیارت کی تو انہوں نے کھانا پیش کیا۔ موسیٰ بن یسار نے کھانا نہ کھایا کیونکہ وہ روزے سے تھے۔ یحییٰ رحمہ اللہ نے کہا: اس مسجد میں بنوکنانہ کے ایک صحابیٔ رسول، جن کی کنیت ابوقرصافہ تھی، چالیس سال تک ہماری امامت کراتے رہے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے۔ میرے والد کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تو انہوں نے اس صحابیٔ رسول کو ان کے روزے والے دن دعوت پر بلایا تو انہوں نے روزہ افطار کر دیا۔ چنانچہ ابراہیم اٹھے اور اپنی چادر سے ان کے لیے جگہ صاف کی اور موسیٰ نے روزہ افطار کر دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابوقرصافہ کا نام جندره بن خیشنہ تھا۔
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن أبى عاصم فى الآحاد: 1035 و البيهقي فى الكبريٰ: 264/7»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1253
فوائد ومسائل: اس روایت کی سند ضعیف ہے، اس میں بلال بن کعب علی راوی مجہول ہے۔ تاہم دیگر صحیح روایت سے نفلی روزہ توڑنا ثابت ہے۔ خصوصاً جب کوئی دعوت کا اہتمام کرے۔ لیکن اگر کوئی شخص روزہ نہیں توڑتا اور دعوت کرنے والے کے لیے دعا کردیتا ہے تو بھی درست ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1253