حدثنا محمد، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا معتمر قال: حدثني سالم بن ابي الذيال، وكان صاحب حديث، قال: سمعت الحسن يقول: اما تعجبون لهذا؟ يعني: مالك بن المنذر عمد إلى شيوخ من اهل كسكر اسلموا، ففتشهم فامر بهم فختنوا، وهذا الشتاء، فبلغني ان بعضهم مات، ولقد اسلم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الرومي والحبشي فما فتشوا عن شيء.حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ أَبِي الذَّيَّالِ، وَكَانَ صَاحِبَ حَدِيثٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ: أَمَا تَعْجَبُونَ لِهَذَا؟ يَعْنِي: مَالِكَ بْنَ الْمُنْذِرِ عَمَدَ إِلَى شُيُوخٍ مِنْ أَهْلِ كَسْكَرَ أَسْلَمُوا، فَفَتَّشَهُمْ فَأَمَرَ بِهِمْ فَخُتِنُوا، وَهَذَا الشِّتَاءُ، فَبَلَغَنِي أَنَّ بَعْضَهُمْ مَاتَ، وَلَقَدْ أَسْلَمَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّومِيُّ وَالْحَبَشِيُّ فَمَا فُتِّشُوا عَنْ شَيْءٍ.
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ کیا آپ ان مالک بن منذر پر تعجب نہیں کرتے کہ وہ روم کے عمر رسیدہ نومسلم کاشتکاروں کو تلاش کرنے کے لیے گئے اور ان کا معائنہ کر کے حکم دیا کیا کہ ان کے ختنے کیے جائیں حالانکہ سردی ہے (اور زخم بھی تکلیف دیتا ہے)، مجھے پتہ چلا کہ ان میں سے بعض لوگ مر بھی گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رومی اور حبشی مسلمان ہوئے تو ان کی کسی چیز کی تلاشی نہیں لی گئی (کہ ان کا ختنہ ہوا یا نہیں)۔
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد موقوفًا و مرسلًا و رواه الخلال من طريق أحمد بسنده الصحيح عن الحسن: 197/150»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوفًا و مرسلًا و رواه الخلال من طريق أحمد بسنده الصحيح عن الحسن
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1251
فوائد ومسائل: حسن بصری رحمہ اللہ کا مقصد اگر یہ ہو کہ کوئی مختون ہے یا نہیں۔ اس کو اہمیت نہیں دینی چاہیے تو ان کا یہ موقف درست نہیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو مسلموں کو ختنہ کروانے اور بال کٹوانے کا حکم دیا ہے۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاش کرکے لوگوں کی تفتیش نہیں لیکن حاکم وقت اگر سمجھے کہ لوگ اس میں غفلت کر رہے ہیں تو وہ تفتیش کرسکتا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1251