حدثنا عبيد، قال: حدثنا يونس بن بكير، قال: حدثنا خالد بن دينار ابو خلدة قال: سمعت انس بن مالك، وهو مع الحكم امير بالبصرة على السرير، يقول: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان الحر ابرد بالصلاة، وإذا كان البرد بكر بالصلاة.حَدَّثَنَا عُبَيْدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ أَبُو خَلْدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، وَهُوَ مَعَ الْحَكَمِ أَمِيرٌ بِالْبَصْرَةِ عَلَى السَّرِيرِ، يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلاَةِ، وَإِذَا كَانَ الْبَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاةِ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے امیر بصره حکم بن ابوعقیل ثقفی کے ساتھ اس کے تخت پر بیٹھ کر فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم گرمی میں (ظہر کی) نماز ٹھنڈی کر کے (قدرے تاخیر سے) پڑھتے، اور جب سردی ہوتی تو جلد نماز پڑھتے۔
تخریج الحدیث: «حسن الإسناد و المرفوع منه صحيح: أخرجه البيهقي فى الكبرىٰ: 191/3 - المشكاة: 620»
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد و المرفوع منه صحيح
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1162
فوائد ومسائل: جمہور اہل علم کے نزدیک گرمی کی شدت ہو تو نماز ظہر قدرے تاخیر سے پڑھنا جائز بلکہ افضل ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نماز کا وقت ہی گزار دیا جائے۔ باقی نمازیں اول وقت ہی میں ادا کرنا افضل ہے۔ البتہ عشاء کی نماز بھی تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔ (بخاري:۵۷۱)
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1162