حدثنا عمرو بن منصور، قال: حدثنا مبارك، قال: حدثنا الحسن، قال: حدثنا انس بن مالك قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وهو على سرير مرمول بشريط، تحت راسه وسادة من ادم حشوها ليف، ما بين جلده وبين السرير ثوب، فدخل عليه عمر فبكى، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: ”ما يبكيك يا عمر؟“ قال: اما والله ما ابكي يا رسول الله، الا اكون اعلم انك اكرم على الله من كسرى وقيصر، فهما يعيثان فيما يعيثان فيه من الدنيا، وانت يا رسول الله بالمكان الذي ارى، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”اما ترضى يا عمر ان تكون لهم الدنيا ولنا الآخرة؟“ قلت: بلى يا رسول الله، قال: ”فإنه كذلك.“حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَارَكٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى سَرِيرٍ مَرْمُولٍ بِشَرِيطٍ، تَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، مَا بَيْنَ جِلْدِهِ وَبَيْنَ السَّرِيرِ ثَوْبٌ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُمَرُ فَبَكَى، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَا يُبْكِيكَ يَا عُمَرُ؟“ قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ مَا أَبْكِي يَا رَسُولَ اللهِ، أَلاَّ أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّكَ أَكْرَمُ عَلَى اللهِ مِنْ كِسْرَى وَقَيْصَرَ، فَهُمَا يَعِيثَانِ فِيمَا يَعِيثَانِ فِيهِ مِنَ الدُّنْيَا، وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ بِالْمَكَانِ الَّذِي أَرَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”أَمَا تَرْضَى يَا عُمَرُ أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ؟“ قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: ”فَإِنَّهُ كَذَلِكَ.“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی رسی سے بنی ہوئی ایک چار پائی یا تخت پر تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے نیچے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا ایک چمڑے کا تکیہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک اور تخت کے درمیان کوئی کپڑا نہ تھا۔ اس دوران سیدنا عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو رو پڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”عمر! تم کیوں روتے ہو؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر یہ بات جانتا نہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کی حیثیت قیصر و کسریٰ سے کہیں بڑھ کر ہے تو میں نہ روتا۔ وہ کس قدر دنیاوی ناز و نعمت میں رہ رہے ہیں، اور آپ اللہ کے رسول اس حال میں ہیں جس کو میں دیکھ رہا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر! کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت؟“ میں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر یہ اسی طرح ہے۔“
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه ابن ماجه، كتاب الزهد: 4153 و مسلم، الطلاق، باب فى الايلاء و اعتزال النساء و تخبيرهن......: 1479، 30 من حديث عمر بن يونس به مطولًا»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1163
فوائد ومسائل: زمین سے قدرے اونچی لکڑی یا لوہے کی بنائی گئی آرام کرنے کی جگہ کو تخت یا چارپائی کہا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد کا یہ عالم تھا کہ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی اس چارپائی پر کوئی کپڑا یا بستر ڈالے بغیر ہی آپ تشریف فرما تھے۔ نیز معلوم ہوا کہ چارپائی یا تخت پر بیٹھنا تکبر نہیں ہے بشرطیکہ وہ تخت سونے چاندی کا نہ ہو۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1163