حدثنا مالك بن إسماعيل، قال: حدثنا إسرائيل، عن ابي جعفر الفراء عن عبد الرحمن بن جدعان قال: كنت مع عبد الله بن عمر، فاستاذن على اهل بيت، فقيل: ادخل بسلام، فابى ان يدخل عليهم.حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْفَرَّاءِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُدْعَانَ قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، فَاسْتَأْذَنَ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ، فَقِيلَ: ادْخُلْ بِسَلاَمٍ، فَأَبَى أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهِمْ.
عبدالرحمٰن بن جدعان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ انہوں نے ایک گھر والوں سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو جواب ملا: سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اندر جانے سے انکار کر دیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه عبدالرزاق: 19430 و ابن أبى شيبة: 25832»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1088
فوائد ومسائل: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر بزرگ سے یہ ممکن نہیں کہ انہوں نے سلام نہ کہا ہو اس لیے انہیں یہ کہنا کہ سلام کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ، مذاق تھا۔ اس لیے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس چلے گئے۔ اس تاویل کی تائید مصنف ابن ابی شیبہ کے اثر سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جب اس طرح کہا جاتا کہ سلام کے ساتھ داخل ہوجا تو وہ واپس چلے جاتے اور فرماتے کہ مجھے معلوم نہیں کہ سلام کہنا ہے کہ نہیں۔ (المصنف لابن ابي شیبة:۸؍۶۴۷)
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1088