حدثنا عبد الله بن ابي شيبة قال: حدثني يحيى بن آدم، عن الحسن بن صالح، عن سلمة بن كهيل، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قال: استاذن عمر على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: السلام على رسول الله، السلام عليكم، ايدخل عمر؟.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللهِ، السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، أَيَدْخُلُ عُمَرُ؟.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کے لیے اجازت مانگی تو یوں کہا: السلام علی رسول الله، السلام علیکم، کیا عمر اندر آ سکتا ہے؟
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب: 5201 و النسائي فى الكبرىٰ: 10153»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1085
فوائد ومسائل: پہلے سلام کہنا چاہیے اور بعدازاں اپنا تعارف کروانا چاہیے کہ کیا فلاں کو اندر آنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح خلیفہ یا کسی اہم شخصیت کو خصوصی سلام اور پھر تمام لوگوں کو سلام کہنا بھی جائز ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1085