حدثنا علي بن الحسن، قال: حدثنا الحسين، قال: حدثنا عبد الله بن بريدة، عن ابيه قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم إلى المسجد، وابو موسى يقرا، فقال: ”من هذا؟“ فقلت: انا بريدة، جعلت فداك، فقال: ”قد اعطي هذا مزمارا من مزامير آل داود.“حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ، وَأَبُو مُوسَى يَقْرَأُ، فَقَالَ: ”مَنْ هَذَا؟“ فَقُلْتُ: أَنَا بُرَيْدَةُ، جُعِلْتُ فِدَاكَ، فَقَالَ: ”قَدْ أُعْطِيَ هَذَا مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ.“
سیدنا بریده رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف گئے تو سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تلاوت کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے دیکھ کر) فرمایا: ”تم کون ہو؟“ میں نے عرض کیا: میں بریدہ ہوں، میں آپ پر قربان جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص (ابوموسیٰ) کو یقیناً داؤد علیہ السلام والی خوش الحانی دی گئی ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب صلاة المسافرين: 793»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1087
فوائد ومسائل: مطلب یہ ہے کہ جب پوچھا جائے کہ تم کون ہو؟ تو اپنا تعارف کرواتے ہوئے اپنا نام اور پتہ بتانا چاہیے۔ یہ کہنا کہ میں، میں ہوں، بے معنی سی بات ہے جسے آپ نے ناپسند فرمایا۔ دوسری حدیث میں سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنا نام بتایا۔ نیز آل داؤد سے خود سیدنا داؤد علیہ السلام مراد ہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1087