اخبرنا جریر، عن یزید بن ابی زیاد، عن مجاهدعن ابن عباس، عن رسول اللٰه صلی اللٰه علیہ وسلم قال: اعطیت خمسا لم یعطهن نبی قبلی ولا فخر، بعثت الی الاحمر والاسود، وکان النبی قبلی یبعث الٰی قومه خاصۃ، وبعثت الی الناس عامة ونصرت بالرعب، فهو امامی مسیرۃ شهر، وجعلت لی الارض مسجدا وطهورا، واحلت لی الغنائم، ولم تحل لاحد قبلی، واعطیت الشفاعۃ فادخرتہا لامتی، فهی نائلة من لا یشرك باللٰه شیئا.اَخْبَرَنَا جَرِیْرٌ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ اَبِیْ زِیَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ نَبِیٌّ قَبْلِیْ وَلَا فَخْرَ، بُعِثْتُ اِلَی الْاَحْمَرِ وَالْاَسْوَدِ، وَکَانَ النَّبِیُّ قَبْلِیْ یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِهِ خَاصَّۃً، وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ عَامَّةً وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، فَهُوَ اَمَامِیْ مَسِیْرَۃَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِیْ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّطَهُوْرًا، وَاُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ، وَلَمْ تَحِلَّ لِاَحَدٍ قَبْلِیْ، وَاُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ فَادَّخَرْتُہَا لِاُمَّتِیّ، فَهِیَ نَائِلَةٌ مَنْ لَا یُشْرِكُ بِاللّٰهِ شَیْئًا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کی گئیں اور میں اس پر کوئی فخر نہیں کرتا، مجھے سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، جبکہ مجھ سے پہلے جو نبی تھے انہیں ان کی قوم کی طرف خصوصی طور پر مبعوث کیا جاتا تھا جبکہ مجھے سارے لوگوں کی طرف عمومی طور پر مبعوث کیا گیا ہے، رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے، وہ مہینے کی مسافت پر مجھ سے آگے ہوتا ہے، ساری زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور باعث طہارت و پاکیزگی بنا دی گئی ہے، میرے لیے مال غنیمت حلال کر دیا گیا ہے، جو کہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں تھا، مجھے شفاعت دی گئی ہے، میں نے اسے اپنی امت کے لیے ذخیرہ کر لیا ہے، وہ ہر اس شخص کو حاصل ہو گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھراتا ہو گا۔“
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 78
فوائد: مذکورہ حدیث سے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وفضیلت ثابت ہوتی ہے۔ (1).... سرخ وسیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا، یعنی سارے لوگوں کی طرف نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا آپ عرب و عجم، شرق و غرب سب کے لیے بلا تفریق و امتیاز نبی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ یٰٓا أَ یُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا نِالَّذِیْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾(الاعراف: 158)....”آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے۔“ تین مہینے کی مسافت پر رعب یعنی اس وقت کی بڑی طاقت روم خوفزدہ تھی۔ معلوم ہوا ساری زمین امت محمدیہ کے لیے سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے۔ پہلے یہود و نصاریٰ صرف اپنے عبادت خانہ میں ہی نماز پڑھ سکتے تھے ان کے لیے کسی اور جگہ عبادت درست نہیں تھی۔ اللہ ذوالجلال نے امت محمدیہ پر احسان کیا کہ ان کے لیے صرف مسجد میں ہی نہیں بلکہ جہاں چاہیں عبادت کر سکتے ہیں۔ سوائے چند جگہوں کے جن کے متعلق احادیث میں وضاحت موجود ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْاَرْضُ کُلُّهَا مَسْجِدٌ اِلَّا الْمَقْبَرَةَ وَالْحَمَّامِ))(سنن ابي داود، رقم: 492۔ سنن ابن ماجہ، رقم: 745).... ”قبرستان اور غسل خانے کے سوا ساری زمین مسجد ہے۔“ پہلی امتوں میں تیمم کا حکم نہیں تھا اس امت پر اللہ ذوالجلال نے یہ احسان فرمایا کہ پانی نہ ہو تو تیمم کرلیا کرو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا﴾(المائدۃ:6).... ”تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔“ مالِ غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو کافروں سے لڑائی کرکے فتح وغلبہ حاصل ہونے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ پہلی امتوں کے لیے یہ حرام تھا، وہ اس طرح کرتے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد کافروں سے حاصل کردہ سارا مال ایک جگہ ڈھیر کردیا جاتا، آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا کر بھسم کر ڈالتی، لیکن امت محمدیہ کے لیے یہ مالِ غنیمت حلال کردیا گیا۔ معلوم ہوا قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے شفاعت کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لیے تڑپ اور محبت کا بھی اثبات ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا کا اختیار دیا گیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات یا رشتہ داروں کے لیے نہیں بلکہ آپ نے یہ دعا اپنی امت کے لیے ذخیرہ کی ہے۔ معلوم ہوا مشرک کو شفاعت کا فائدہ نہیں ہوگا۔ جیسا کہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے روز میری شفاعت سے فیض یاب ہونے والے خوش نصیب لوگ وہ ہیں جنہوں نے خلوص دل سے لا الٰه الا الله کا اقرار کیا۔“(بخاري، کتاب العلم، باب الحرص علی الحدیث) سیّدنا نوح علیہ السلام کا بیٹا مشرک تھا۔ تو سیّدنا نوح علیہ السلام کی سفارش ردّ کردی گئی۔ (دیکھئے سورہ ہود: 45۔ 47) صحیح بخاری میں ہے سیّدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے مشرک والد کے لیے دعا کریں گے لیکن باپ کو سفارش فائدہ نہیں دے گی۔ (بخاري، کتاب بدء الخلق، باب قول الله تعالیٰ ﴿واتخذ اللہ ابراهیم خلیلا﴾ ۔