اخبرنا وكيع، نا سفيان، عن عمرو بن ميمون بن مهران، عن ابيه قال: كانت ام كلثوم بنت عقبة تحت الزبير بن العوام، قال: فخرج إلى الصلاة وقد ضربها الطلق فكتمته فقالت: طيب نفسي بتطليقة فطلقها، فرجع وقد وضعت، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فساله، فقال: ((بلغ الكتاب اجله، اخطبها إلى نفسها))، فقال: ما لها خدعتني خدعها الله.أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، نا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ تَحْتَ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، قَالَ: فَخَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ وَقَدْ ضَرَبَهَا الطَّلْقُ فَكَتَمَتْهُ فَقَالَتْ: طَيِّبْ نَفْسِي بِتَطْلِيقَةٍ فَطَلَّقَهَا، فَرَجَعَ وَقَدْ وَضَعَتْ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: ((بَلَغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ، اخْطِبْهَا إِلَى نَفْسِهَا))، فَقَالَ: مَا لَهَا خَدَعَتْنِي خَدَعَهَا اللَّهُ.
عمرو بن میمون بن مہران نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے کہا: ام کلثوم بنت عقبہ، زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، وہ نماز کے لیے چلے گئے، اور ان (اہلیہ) کو درد زہ شروع ہو گئی اور اسے چھپائے رکھا، انہوں نے کہا: ایک طلاق دے کر میرا دل خوش کر دیجیئے، پس انہوں نے ایک طلاق دے دی، وہ (نماز پڑھ کر) واپس آئے تو انہوں نے بچے کو جنم دے دیا تھا، پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ سے مسئلہ دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے قانون کے مطابق مقررہ وقت پورا ہو چکا، اسے پیغام نکاح دو۔“ انہوں نے کہا: اس نے مجھے دھوکہ دیا، اللہ اسے دھوکہ دے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجه، كتاب الطلاق، باب المطلقة الحامل الخ، رقم: 2026. قال الشيخ الالباني: صحيح. سنن كبري بيهقي: 421/7.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 594 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 594
فوائد: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاُوْلَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾(الطلاق:4) .... ”حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔“ مطلقہ عورت کی عدت تین حیض ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ﴾(البقرة: 228) .... ”مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔“ سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے رجعی طلاق دی تھی، کیونکہ پہلی اور دوسری طلاق رجعی ہوتی ہے۔ تیسری میں اختیار ختم ہوجاتا ہے۔ رجعی طلاق کی عدت وصع حمل یا تین حیض ہے۔ اگر ان سے پہلے پہلے رجوع کر لیں تو ٹھیک ہے۔ اگر بعد میں کریں تو دوبارہ نکاح کرنا ہوگا اور وہ بھی اگر عورت پسند کرے گی تو ہوگا ورنہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح وضع حمل پر خاوند کی وفات کی عدت بھی ختم ہوجاتی ہے۔