أخبرنا أبو معاویة، ووکیع، قالا حدثنا الأعمش، عن أبی حازم، عن أبی هریرة رضی اللٰه عنه، عن رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم قال: إذا دعا أحدکم امرأته علی فراشه فابت فبات غضبانا لعنتها الملائکة حتی تصبح. أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِیَةَ، وَوَکِیعٌ، قَالَا حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ، عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا دَعَا أَحَدُکُمُ امْرَأَتَهُ عَلَی فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانًا لَعَنَتْهَا الْمَلَائِکَةُ حَتَّی تُصْبِحَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے اور وہ الگ (ناراض) رات بسر کرے تو صبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب بدء الخلق، باب اذا قال احدكم والملائكة الخ، رقم: 3237. مسلم، كتاب النكا ح، باب تحريم امتناعها من فراش زوجها، رقم: 1436.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 592 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 592
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا عورت کے لیے خاوند کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ بستر سے ناطہ توڑ لینے کا مطلب یہ ہے کہ رات کو اس کے ساتھ نہ سونا یا ہم بستری کے لیے بلائے تو انکار کر دے۔ تاہم اگر کوئی شرعی عذر ہو تو انکار جائز ہے، خاوند کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عورت کا حالت حیض میں ہونا انکار کے لیے شرعی عذر نہیں، کیونکہ ایسی حالت میں مرد کو لباس کے اوپر سے مباشرت کا حق ہے۔ (شرح النووی: 10؍ 7،8) لیکن اگر شرعی عذر نہ ہو تو انکارکی صورت میں غضب الٰہی کی مستحق قرار پائے گی اور ایسی عورتیں فرشتوں کی لعنت کی بھی مستحق ہوں گی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو قسم کے لوگوں کی نماز ان کے سروں سے اوپر تجاوز نہیں کرتی، مفرور غلام یہاں تک کہ وہ اپنے مالکوں کے پاس پلٹ کر نہ چلا جائے اور خاوند کی نافرمانی کرنے والی عورت یہاں تک کہ وہ (اس کی طرف) لوٹ آئے۔“(مجمع الزوائد: 4؍ 313)