اخبرنا عیسی بن یونس، نا عبیداللٰه، عن نافع، عن ابن عمر: ان رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم رخص للعباس بن عبدالمطلب ان یبیت بمکة ایام منی، من اجل سقایتهٖ.اَخْبَرَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ، نَا عُبَیْدُاللّٰهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلَبِ اَنْ یَّبِیْتَ بِمَکَّةَ اَیَّامَ مِنًی، مِنْ اَجْلِ سِقَایتِهٖ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو ان کے حاجیوں کو پانی پلانے کی وجہ سے ایام منیٰ مکہ میں رات گزارنے کی اجازت دی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 372 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 372
فوائد: منیٰ کے ایام (11، 12، 13 ذوالحجہ) جن میں حاجی منیٰ میں رہتے ہیں، ان ایام کی راتیں منی میں گزارنی چاہئیں۔ لیکن اگر عذر مجبوری ہو تو منیٰ سے باہر راتیں گزارنے میں رخصت ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کو اجازت دی، اسی طرح سیّدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کے چرواہوں کو منیٰ سے باہر رات گزارنے کی اجازت دی کہ وہ دس ذوالحجہ کو کنکریاں ماریں، پھر دوسرے اور تیسرے روز کنکریاں ماریں، پھر کوچ کے روز بھی ماریں۔ (سنن ابي داود، رقم: 1975۔ سنن ترمذي، رقم: 955۔ سنن ابن ماجة، رقم: 3037) لیکن بغیر عذر کے منیٰ سے باہر رات گزارنا درست نہیں ہے۔ جمہور علماء کا موقف ہے کہ ایام تشریق میں منیٰ میں راتیں گزارنا واجب ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے جمہور کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ (شرح مسلم للنووی: 5؍ 200)