الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 195
فوائد: مذکورہ حدیث میں ہے تشہد ہم کو اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکھاتے جس طرح قرآنِ مجید کی سورت سکھائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑے اہتمام کے ساتھ اور بڑی توجہ کے ساتھ سکھاتے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ تشہد واجب ہے اور تشہد کے الفاظ کون سے پڑھنے چاہئیں۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے الفاظ ہیں: ((اَلتَّحِیَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلٰواتُ الطَّیِّبَاتُ لِلّٰهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ اَیُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُهٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ وَاَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰهِ۔))(مسلم، رقم: 403۔ سنن ابي داود، رقم: 973) سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ ہیں: ((اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِبَّاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُهٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ۔))(بخاري، رقم:831۔ مسلم، رقم: 402۔ سنن ابي داود، رقم: 968) تشہد کے کون سے الفاظ افضل ہیں، ان میں سے جمہور علماء نے سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے تشہد کو افضل قرار دیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشہد کو افضل کہا ہے۔ (کتاب الام: 1؍ 228۔ سبل السلام: 1؍ 267) امام مسلم اور امام ترمذی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کو زیادہ افضل اور بہتر قرار دیا ہے۔ (سبل السلام: 1؍ 443۔ سنن ترمذي، رقم: 289۔ فتح الباري: 2؍ 368) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جس طرح قرآن کی تعلیم دی اسی طرح انہیں احادیث بھی سکھائیں، لہٰذا منکرین حدیث کا یہ اعتراض کہ احادیث کی تعلیم و تعلّم کا سلسلہ عہد نبوی میں نہ تھا باطل و مردود ہے۔