اخبرنا محمد بن بکر، انا ابن جریج، اخبرنی ابو الزبیر، انه سمع طاؤوسا یقول: قلنا لابن عباس فی الاقعاء علی القدمین، فقال: هو سنة، قلنا: فما ترٰی ذٰلک من الحسن اذا فعله الرجل؟ فقال: بلٰی هو سنة نبیك.اَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، اَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، اَخْبَرَنِیْ اَبُو الزُّبَیْرِ، اَنَّهٗ سَمِعَ طَاؤُوْسًا یَقُوْلُ: قُلْنَا لِاِبْنِ عَبَّاسٍ فِی الْاِقْعَاءِ عَلَی الْقَدَمَیْنِ، فَقَالَ: هُوَ سُنَّةٌ، قُلْنَا: فَمَا تَرٰی ذٰلِکَ مِنَ الْحَسَنِ اِذَا فَعَلَهٗ الرَّجُلُ؟ فَقَالَ: بَلٰی هُوَ سُنَّةُ نَبِیِّكَ.
طاؤس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، ہم نے (سجدوں کے درمیان) قدموں پر سرین رکھ کر بیٹھنے کے متعلق سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: وہ سنت ہے، ہم نے کہا: جب آدمی اس طرح کرتا (بیٹھتا) ہے تو کیا آپ اسے اچھا سمجھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: کیوں نہیں، وہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب المساجد، باب جواب الاقعاء على القدمين، رقم: 536. سنن ابوداود، رقم: 845. سنن ترمذي، رقم: 283.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 194 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 194
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دو سجدوں کے درمیان اقعاء کرنا جائز ہے۔ اقعاء کا معنی ہے ایڑیوں پر سرین رکھ کر بیٹھنا۔ امام ابوداود رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا حدیث کو اس باب کے تحت نقل فرمایا ہے: (بَابُ الْاِقْعَاءِ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ)۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اقعاء کے باب میں دو حدیثیں وارد ہیں۔ ایک حدیث کی رو سے تو اقعاء سنت ہے اور دوسری حدیث میں ممانعت ہے۔ (ممانعت عُقْبَة الشَّیْطَان والی کیفیت سے ہے) اقعاء کے حکم اور اقعاء کی تفسیر میں علماء نے اختلاف کیا ہے اور صحیح یہ ہے کہ اقعاء کی دو قسمیں ہیں: ایک تو یہ کہ اپنے دونوں سرین زمین پر لگا دے اور پنڈلیوں کو کھڑا کرے۔ اور ہاتھوں کو کتے کی طرح زمین پر رکھے، یہ ممنوع ہے اور حدیث میں اسی کی ممانعت ہے۔ دوسرا یہ کہ دونوں سجدوں کے بیچ میں ایڑیوں پر بیٹھے اور یہی سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مراد ہے۔ اور یہ اقعاء دونوں سجدوں کے درمیان میں مسنون ہے۔