وعن انس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال: غلا السعر في المدينة على عهد رسول الله فقال الناس: يا رسول الله! غلا السعر، فسعر لنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:«إن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق، وإني لارجو ان القى الله تعالى وليس احد منكم يطلبني بمظلمة في دم ولا مال» رواه الخمسة إلا النسائي، وصححه ابن حبان.وعن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال: غلا السعر في المدينة على عهد رسول الله فقال الناس: يا رسول الله! غلا السعر، فسعر لنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:«إن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق، وإني لأرجو أن ألقى الله تعالى وليس أحد منكم يطلبني بمظلمة في دم ولا مال» رواه الخمسة إلا النسائي، وصححه ابن حبان.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مدینہ منورہ میں چیزوں کا بھاؤ چڑھ گیا۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اشیاء کے نرخ (بڑے) تیز ہو گئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے (ان کے) نرخ مقرر فرما دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نرخ کا تعین کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، وہی ارزاں و سستا کرتا ہے، وہی گراں کرتا ہے اور روزی دینے والا وہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے میں اس حال میں ملاقات کروں کہ کوئی شخص تم میں سے مجھ سے خون میں اور مال میں ظلم و ناانصافی کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔“ نسائی کے علاوہ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत अनस बिन मलिक रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के समय में मदीना मुनव्वरा में चीजों का भाव चढ़ गया । लोगों ने कहा या रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ! चीज़ों का भाव चढ़ गया है, आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम हमारे लिए (इन का) भाव नियुक्त कर दें। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने कहा “भाव तै करने वाला अल्लाह तआला है, वही सस्ता और कम करता है, वही बढ़ाता है और रोज़ी देने वाला वही है और मैं चाहता हूँ कि अल्लाह तआला से मैं उस हाल में मिलूं कि कोई व्यक्ति तुम में से मुझ से ख़ून में और माल में अत्याचार और अन्याय की मांग करने वाला न हो।” निसाई के सिवा इसे पांचों ने रिवायत किया है और इब्न हब्बान ने इसे सहीह ठहराया है।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في التسعير، حديث:3451، والترمذي، البيوع، حديث:1314، وابن ماجه، التجارات، حديث:2200، وابن حبان (الإحسان):7 /215، حديث:4914.»
Narrated Anas bin Malik (RA):
When prices were high in al-Madinah in the time of Allah's Messenger (ﷺ), the people said, "O Allah's Messenger, prices have become high, so fix them for us." Allah's Messenger (ﷺ) replied, Allah is the One Who fixes prices, Who withholds, gives lavishly and provides. And I hope that when I meet Allah, the Most High, none of you will have any claim on me for an injustice regarding blood or property." [Reported by al-Khamsah excluding an-Nasa'i; Ibn Hibban graded it Sahih (authentic)].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 679
تخریج: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في التسعير، حديث:3451، والترمذي، البيوع، حديث:1314، وابن ماجه، التجارات، حديث:2200، وابن حبان (الإحسان):7 /215، حديث:4914.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اشیاء کی قیمتوں پر سرکاری کنٹرول ممنوع ہے۔ اس سے ایک طرف اگر تجارت پیشہ حضرات کو نقصان پہنچتا ہے تو دوسری جانب تاجروں کا اشیاء کو روک لینا قحط کا سبب بن جاتا ہے۔ عوام ضروریات زندگی کی فراہمی سے مجبور ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بلیک مارکیٹنگ کا بازار گرم ہوتا ہے۔ عوام معاشی بدحالی کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے معاشرے میں بے چینی‘ اضطراب اور بدامنی جنم لیتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 679
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3451
´نرخ مقرر کرنا کیسا ہے؟` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گرانی بڑھ گئی ہے لہٰذا آپ (کوئی مناسب) نرخ مقرر فرما دیجئیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، (میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے، اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو (اس لیے میں بھاؤ مقرر کرنے کے حق میں نہیں ہوں)۔“[سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3451]
فوائد ومسائل: فائدہ۔ رسول اللہ ﷺ نے قیمتوں کو مارکیٹ فورسز خصوصا رسد وطلب کے فطری توازن کے مطابق رکھنے پر زور دیا اور مہنگائی کے باوجود قیمتیں مقرر کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ کا یہ فرمان کے اللہ ہی (چیزوں کی رسد) گھٹانے بڑھانے والا ہے۔ موجودہ اکنامکس کے تصورات سے صدیوں پہلے علم کی بات ہے۔ آپ نے اس کے ذریعے معیشت کا ایک بنیادی اصول بیان فرمایا ہے۔ اور منڈی کے عوامل کے آزاد رہنے کو انصاف اور عدل قرار دیا۔ قیمتوں کے تقرر سے کسی نہ کسی کا حق ضرور مارا جاتا ہے۔ اس لئے اسے اجتناب کا حکم دیا۔ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے۔ کہ مہنگائی کا علاج یہ ہے۔ کہ اشیاء کی ر سد میں برکت ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کا مفہوم یہی ہے۔ کہ وہ چیزوں کی پیدوار میں برکت عطا کرے۔ اور ضرورت پوری کرنے کا متبادل انتظام کردے۔ حکومت کو یہی کرنا چاہیے کہ وہ مہنگائی توڑنے کےلئے رسد میں اضافے کی کوش کرے۔ اور متبادل طریقے تلاش کرے۔ یہ مہنگائی کا کامیاب علاج کرے۔ جب کہ قیمتیں مقرر کرنے کے باوجود منڈی میں ان پر عمل نہیں ہوتا۔ اور چیزوں کی چور بازاری شروع ہوجاتی ہے۔ جن سے لوگوں کی ازیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3451