وعن علي بن ابي طالب رضي الله تعالى عنه قال: امرني رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ان ابيع غلامين اخوين، فبعتهما، ففرقت بينهما، فذكرت ذلك للنبي لى الله عليه وآله وسلم فقال:«ادركهما فارتجعهما، ولا تبعهما إلا جميعا» . رواه احمد، ورجاله ثقات، و قد صححه ابن خزيمة وابن الجارود وابن حبان والحاكم والطبراني وابن القطان.وعن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه قال: أمرني رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن أبيع غلامين أخوين، فبعتهما، ففرقت بينهما، فذكرت ذلك للنبي لى الله عليه وآله وسلم فقال:«أدركهما فارتجعهما، ولا تبعهما إلا جميعا» . رواه أحمد، ورجاله ثقات، و قد صححه ابن خزيمة وابن الجارود وابن حبان والحاكم والطبراني وابن القطان.
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں دو غلام بھائیوں کو فروخت کروں۔ میں نے ان دونوں کو الگ الگ آدمیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دونوں کو جا کر واپس لے آؤ اور اکٹھا ہی فروخت کرو۔“ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں اور اسے ابن خزیمہ، ابن جارود، ابن حبان، حاکم، طبرانی اور ابن قطان نے صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत अली बिन अबु तालिब रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि मुझे रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने हुक्म दिया कि मैं दो ग़ुलाम भाइयों को बेच कर आऊं। मैं ने इन दोनों को अलग अलग आदमियों के हाथ बेच दिया और फिर आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को इस बारे में बताया तो आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने कहा “दोनों को जा कर वापस ले आओ और इकट्ठा ही बेचो।” इसे अहमद ने रिवायत किया है । इस के रावी सक़ा हैं और इसे इब्न ख़ुज़ैमा, इब्न जारूद, इब्न हब्बान, हाकिम, तिब्रानी और इब्न क़तान ने सहीह ठहराया है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، البيوع، باب ما جاء في كراهية الفرق بين الأخوين، حديث:1284، وابن ماجه، التجارات، حديث:2249، وأحمد:1 /97، 126، والحاكم:2 /55.* وقال أبوداود، حديث"2696 "ميمون لم يدرك عليًا".»
Narrated 'Ali bin Abu Talib (RA):
Allah's Messenger (ﷺ) commanded me to sell two youths who were brothers. I sold them and separated them (by selling them to different people). When I made mention of that to the Prophet (ﷺ), he said, "Find them and get them back, and do not sell them except that they are together." [Reported by Ahmad, and the narrators of his chain are reliable. Indeed Ibn Khuzaimah, Ibn al-Jarud, Ibn Hibban, al-Hakim, at-Tabarani and Ibn Qattan graded it Sahih (authentic)].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 678
تخریج: «أخرجه الترمذي، البيوع، باب ما جاء في كراهية الفرق بين الأخوين، حديث:1284، وابن ماجه، التجارات، حديث:2249، وأحمد:1 /97، 126، والحاكم:2 /55.* وقال أبوداود، حديث"2696 "ميمون لم يدرك عليًا".»
تشریح: 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ مسند احمد کے محققین نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ /۱۵۵) 2.سابقہ حدیث ماں اور بچے میں جدائی کی حرمت پر دلالت کرتی ہے‘ خواہ وہ علیحدگی بیع کے ذریعے سے ہو یا ہبہ کی صورت میں یا دھوکے بازی سے الگ کرنے وغیرہ کی شکل میں۔ 3. والدہ کے لفظ میں والد بھی شامل ہے‘ یعنی ماں سے جدا کیا جائے نہ باپ سے۔ اور یہ حدیث بھائیوں کے درمیان تفریق و جدائی کی حرمت پر دلالت کرتی ہے اور قیاس کے ذریعے سے ان کے ساتھ دوسرے ذوی الارحام کو بھی ملا لیا گیا ہے‘ مگر امام شوکانی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ذوی الارحام کو اس میں شامل کرنا محل نظر ہے کیونکہ ان کی جدائی سے وہ مشقت و پریشانی نہیں ہوتی جو ماں اور بچے کے مابین یا بھائی بھائی کے درمیان جدائی سے حاصل ہوتی ہے‘ لہٰذا دونوں میں واضح فرق کی وجہ سے ایک کو دوسرے کے ساتھ نہ ملایا جائے اور صرف نص پر توقف کیا جائے۔ 4. یہ بات بھی معلوم رہے کہ تفریق کی حرمت چھوٹے بچے کے ساتھ مخصوص ہے۔ بڑے کی جدائی کب جائز ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ باعتبار دلیل‘ راجح یہ ہے کہ جب لڑکا اور لڑکی بالغ ہوجائیں‘ اس وقت تفریق حرام نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 678
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1284
´غلاموں کی بیع میں دو بھائیوں یا ماں اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کی حرام ہے۔` علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو غلام دیئے جو آپس میں بھائی تھے، میں نے ان میں سے ایک کو بیچ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”علی! تمہارا غلام کیا ہوا؟“، میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے ایک کو بیچ دیا ہے) تو آپ نے فرمایا: ”اسے واپس لوٹا لو، اسے واپس لوٹا لو۔“[سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1284]
اردو حاشہ: نوٹ: (میمون کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، لیکن پچھلی حدیث اور دیگر شواہد سے یہ مسئلہ ثابت ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1284