سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
اللہ تعالیٰ کی ذات میں نہیں، اس کے انعامات میں غور و فکر کرنا
حدیث نمبر: 9
-" تفكروا في آلاء الله، ولا تفكروا في الله عز وجل".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کرو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر مت کرو۔“
تخریج الحدیث: «رواه الطبراني فى ”الأوسط“: 6456، والسلالكائي فى ”السنة“: 1/ 1/119 - 2، والبيهقي فى ”الشعب“: 75/1 - هند»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 9 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 9
فوائد:
اگر کوئی انسان اللہ تعالی کی ذات کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا صرف ایک حل ہے کہ اس کی مخلوقات میں غور و فکر کر کے اس کی ذات و صفات کی عظمتوں کا اندازہ لگا لے، مثلاََ آسمان، سورج، چاند، ستارے، سیارے اور زمین جیسی بڑی بڑی مخلوقات بغیر کسی سہارے کے کھڑی ہیں، ان میں سے ہر ایک کے ارد گرد خلا ہے، سمندروں اور ان کی لہروں کو مد نظر رکھیں، زمین میں نوع بنوع خزانوں پر نظر دوڑائیں، آسمانوں سے برستی ہوئے بارش پر غور کریں، قسما قسم کے حیوانات، نباتات اور چرند پرند کو دیکھیں۔ بالآخر کہنا پڑے گا کہ جس ذات کی مخلوق کا یہ عالم ہے، وہ خود کتنی عظیم ہو گی۔ ہم تو اس کی مخلوق کے حقائق کو نہیں سمجھ سکتے، اس کی ذات کو کیسے پرکھیں گے؟ جو بندہ چاند سے اوپر نہیں جا سکتا ہے، وہ ساتوں آسمانوں سے اوپر عرش معلٰی پر جلوہ افروز ذات کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہے؟ اللہ تعالی کی ذات اتنی عظیم سے عظیم تر ہے کہ اس کی عظمتوں کا اندازہ لگانا کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
«إنّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ٥ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ فِيمَا وَ فَعُودًا وَ عَلَى جُنوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا ما خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِه» [سورة آل عمران: 191، 190]
”آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناََ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو اللہ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا، تو پاک ہے، پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔“
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں، انہیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانروا کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل و عریض کائنات کے اس ترتیب شدہ نظام کے پیچھے ایک ذات ہے، جو اسے چلا رہی ہے اور اس کی تدبیر کر رہی ہے اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔
اس حدیث کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اللہ تعالی کی ذات، اسمائے حسنی اور صفاتِ علیا کو من و عن تسلیم کریں اور ان کی کیفیت کے بارے میں اپنے دماغ کو مت کھپائیں۔ اتنا جان لینا کافی ہے کہ اللہ تعالی عرش پر ہے، اس کی ایک ذات ہے، اس کے ہاتھ ہیں، وہ ہنستا ہے، وہ ناراض ہوتا ہے، وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ «علي هذا القياس» لیکن ان امور میں سے کسی کے بارے میں یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اور اس کی فلاں صفت یا کیفیت کیسے ہے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 9