-" اسلمت على ما اسلفت من خير".-" أسلمت على ما أسلفت من خير".
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جو نیکیاں کر چکے ہو، ان سمیت اسلام لائے ہو۔“
हज़रत हकीम बिन हिज़ाम रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “तुम जो नेकियाँ कर चुके हो, उनके साथ इस्लाम लाए हो।”
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 248
تخریج الحدیث: «أخرجه الشيخان وغيرهما»
قال الشيخ الألباني: - " أسلمت على ما أسلفت من خير ". _____________________ قال ابن حزم: فصح أن المرتد إذا أسلم، والكافر الذي لم يكن أسلم قط إذا أسلما، فقد أسلما على ما أسلفا من الخير، وقد كان المرتد إذ حج وهو مسلم قد أدى ما أمر به وما كلف كما أمر به، فقد أسلم الآن عليه فهو له كما كان. وأما الكافر يحج كالصابئين الذين يرون الحج إلى مكة في دينهم، فإن أسلم بعد ذلك لم يجزه لأنه لم يؤده كما أمر الله تعالى به، لأن من فرض الحج وسائر الشرائع كلها أن لا تؤدى إلا كما أمر بها رسول الله محمد بن عبد الله عليه السلام في الدين الذي جاء به الذي لا يقبل الله تعالى دينا غيره، وقال عليه السلام: " من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد ". والصابئ إنما حج كما أمره يوراسف أو هرمس فلا يجزئه، وبالله تعالى التوفيق. ويلزم من أسقط حجه بردته أن يسقط إحصانه وطلاقه الثلاث وبيعه وابتياعه وعطاياه التي كانت في الإسلام، وهم لا يقولون بهذا، فظهر فساد قولهم، وبالله تعالى نتأيد ". وإذا تبين هذا فلا منافاة بينه وبين الحديث المتقدم برقم (52) " أن الكافر يثاب على حسناته ما عمل بها لله في الدنيا " لأن المراد به الكافر الذي سبق في علم الله أنه يموت كافرا بدليل قوله في آخره: " حتى إذا أفضى إلى الآخرة لم يكن له حسنة يجزى بها "، وأما الكافر الذي سبق في علم الله أنه يسلم ويموت مؤمنا فهو يجازى على حسناته التي عملها حالة كفره في الآخرة، كما أفادته الأحاديث المتقدمة، ومنها حديث حكيم بن حزام الذي أورده ابن حزم في كلامه المتقدم وصححه ولم يعزه لأحد من المؤلفين، وقد أخرجه البخاري في " صحيحه " (4 / 327، 5 / 127، 10 / 348) ومسلم (1 / 79) وأبو عوانة في " صحيحه " أيضا (1 / 72 - 73) وأحمد (3 / 402) . __________جزء : 1 /صفحہ : 496__________ ومنها حديث عائشة في ابن جدعان الذي ذكره الحافظ غير معزو لأحد، فأنا أسوقه الآن وأخرجه وهو: " لا يا عائشة، إنه لم يقل يوما: رب اغفر لي خطيئتي يوم الدين ". ¤
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 48 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 48
فوائد:
حکیم بن حزام کافر تھے، جب وہ مسلمان ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ مژدہ سنایا کہ ان کی حالت کفر میں کی گئی نیکیاں بھی محفوظ کر لی گئی ہیں۔
امام البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: اس حدیث کی روشنی میں یہ کہنا درست ثابت ہوا کہ جب کافر اور مرتد اسلام قبول کرتے ہیں، تو ان کی سابقہ زندگیوں میں کی گئی نیکیاں بھی ان کے حق میں ذخیرہ کر لی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص حالت اسلام میں ادائیگی حج کے بعد مرتد ہو کر پھر مسلمان ہو جاتا ہے تو اس کا حج ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی کافر حالت کفر میں حج ادا کرنے کے بعد مشرف باسلام ہوتا ہے تو اس کا حج اسے کفایت نہیں کرتا، کیونکہ اس کا حج شریعت اسلامیہ کے احکام کے مطابق ادا نہیں کیا جاتا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌ»”جس کسی نے ایسا عمل کیا، جس پر (ہمارے دین) کا معاملہ نہ تو وہ مردود ہوگا۔“
جو لوگ مرتد کے حج کے ضائع ہو جانے کا دعوی کرتے ہیں، ان کو چاہیے کہ اس کے شادی شدہ ہونے، اس کی تین طلاقوں، اس کی خرید و فروخت کے معاملات اور اس کے عطیوں کو ساقط اور غیر معتبر سمجھیں، کیونکہ یہ سارے اسلامی احکام کے مطابق طے پائے تھے۔ لیکن ان میں کوئی بھی ان امور کے غیر معتبر ہونے کا قائل نہیں ہے، سو معلوم ہوا کہ حج کے بارے میں ان کا قول فاسد ہے۔
اس بحث کے بعد ہم آپ کی توجہ درج ذیل حدیث کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَتَهُ يُعْطى بِهَا، وَفِي رَوَايَة: يُثَابُ عَلَيْهَا الرِزْقُ فِى الدُّنْيَا، وَيَجْزِى بِهَا الآخِرَةِ، وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعِمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلَّهِ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى إِذَا أَفْضَى إِلَى الآخِرَةِ، لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُجْزَى بِهَا .»[صحيحه: 53] ”اللہ تعالی نیکی کے سلسلے میں مومن پر ظلم نہیں کرتا، اس نیکی کی وجہ سے اسے دنیا میں رزق عطا کیا جاتا ہے اور آخرت میں ثواب دیا جاتا ہے، لیکن کافرکو اس کی نیکیوں کا ثواب دنیا میں کھلا دیا جاتا ہے، جب وہ آخرت تک رسائی حاصل کرتا ہے تو اس کی کوئی ایسی نیکی (باقی ہی) نہیں ہوتی کہ اسے اس کا صلہ دیا جا سکے۔“
اس حدیث مبارکہ میں اس کافر کا ذکر ہے، جس نے اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق کافر مرنا ہوتا ہے، کیونکہ اسی حدیث میں یہ اشارہ موجود ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حتی کہ جب وہ کافر آخرت تک پہنچتا ہے تو اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوتی کہ اسے اس کا صلہ دیا جا سکے۔“
رہا مسئلہ اس کافر کا، جس نے مسلمان ہو کر مومن مرنا ہوتا ہے، تو اس کی حالت کفر میں کی گئی نیکیاں ضائع نہیں ہوتیں اور اسے آخرت میں ان کا بدلہ دیا جاتا ہے، جیسا کہ مختلف احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ [صحيحه: 248]
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 48