- (من احسن في الإسلام، لم يؤاخذ بما عمل في الجاهلية، ومن اساء في الإسلام؛ اخذ بالاول والآخر).- (مَن أحسنَ في الإِسلام، لم يُؤاخَذ بما عمِلَ في الجاهليّةِ، ومن أساءَ في الإِسلام؛ أُخِذَ بالأوّل والآخرِ).
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے دور جاہلیت میں جن برائیوں کا ارتکاب کیا، کیا ان کی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے اسلام میں حسن پیدا کر لیتا ہے اس سے دور جاہلیت میں کی گئی برائیوں کی باز پرس نہیں ہو گی اور جو (اسلام قبول کرنے کے بعد بھی برائیاں کرتا رہتا ہے، اس سے پہلے اور پچھلے (سب) گناہوں کی پوچھ کچھ ہو گی۔“
हज़रत अब्दुल्लाह बिन मसऊद रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं, एक व्यक्ति ने कहा कि ऐ अल्लाह के रसूल, हमने जाहिलियत के समय में जो पाप किये हैं, क्या उनकी वजह से हमारी पूछताछ होगी ? आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जो अपने इस्लाम में अच्छाई पैदा करलेता है उस से जाहिलियत के समय में किये गए पापों की पूछताछ नहीं होगी और जो (इस्लाम स्वीकार करने के बाद भी बुराइयां करता रहता है, उस से पहले और पिछले (सब) पापों की पूछताछ होगी।”
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3390
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 6921، ومسلم: 1/ 77 - 78، وأبو عوانة: 71/1، والدارمي: 3/1، وابن ماجه: 4242، والطحاوي فى ”مشكل الآثار“: 211/1، والبيهقي فى ”السنن“: 123/9، و ”الشعب“: 23/57/1، وعبد الرزاق فى ”المصنف“: 19686/454/10، وأحمد فى ”مسنده“: 409/1 و431»
قال الشيخ الألباني: - (مَن أحسنَ في الإِسلام، لم يُؤاخَذ بما عمِلَ في الجاهليّةِ، ومن أساءَ في الإِسلام؛ أُخِذَ بالأوّل والآخرِ) . _____________________ أخرجه البخاري (6921) ، ومسلم (1/77- 78) ، وأبو عوانة (1/71) والدارمي (1/3) ، وابن ماجه (4242) ، والطحاوي في "مشكل الآثار" (1/211) ، والبيهقي في " السنن " (9/123) ، و" الشعب " (1/57/23) ، وعبد الرزاق في "المصنف" (10/454/19686) ، وأحمد (1/409و431) من طريق منصور والأعمش عن أبي وائل عن ابن مسعود رضي الله عنه قال: قال رجل: يا رسول الله! أنؤاخذ بما عملنا في الجاهلية؟ قال: ... فذكره. ******* ¤
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 50 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 50
فوائد:
اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اگر مشرف باسلام ہونے والا آدمی اپنے اسلام میں حسن پیدا نہیں کرتا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا رہتا ہے تو اس کے دورِ جاہلیت والے گناہوں کا بھی مؤاخذہ ہو گا، جبکہ امتِ مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبولیت اسلام کی وجہ سے سابقہ ساری خطائیں معاف کر دی جاتی ہیں۔ جیسا کہ سیدنا عمرو بن عاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: آپ دایاں ہاتھ پھیلائیں تا کہ میں بیعت کر سکوں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پھیلایا، لیکن میں اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عمرو! کیا ہوا؟“ میں نے کہا: میں اپنا ایک شرط لگانا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کون کی شرط؟“ میں نے کہا: یہ کہ مجھے بخش دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «آمَا عَلِمْتَ يَا عَمَرُوا إِنَّ الْإِسْلامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَإِنَّ الْهِجَرَة تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا وَإِنَّ الْحَج يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ»
یعنی: ”اے عمرو! کیا تجھے معلوم نہیں ہے کہ اسلام پچھلے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور بیشک ہجرت سابقہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور حج پچھلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔“[مسلم: 321]
حافظ ابن حجر نے کہا کہ امام خطابی کہتے ہیں: یہ حدیث امت مسلمہ کے اجماع اور اللہ تعالی کے اس قول کے مخالف ہے: «قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوا يغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ» ”کافروں سے کہہ دو کہ اگر وہ (کفر سے) باز آ گئے تو ان کے سابقہ (گناہ) بخش دیئے جائیں گے۔“
پس اس حدیث کی یہ توجیہ بیان کریں گے کہ جب کافر اسلام قبول کرتا ہے تو سابقہ برائیوں کی وجہ سے اس کا مواخذہ نہیں کیا جاتا، لیکن اگر وہ قبولیت اسلام کے بعد برائیوں میں لتھڑ جاتا ہے اور سنگین جرائم کا مرتکب ہوتا ہے تو حالت اسلام میں کی گئی برائیوں پر اس کا مؤاخذہ کیا جائے گا اور حالت کفر میں کی گئی گئی برائیوں پر اس کی سرزنش کی جائے گی۔ یعنی کہ اسے کہا جائے گا: کیا تو نے زمانہ کفر میں فلاں فلاں گناہ کا ارتکاب نہیں کیا تھا؟ پھر تیرا اسلام تجھے ان برائیوں سے باز کیوں نہ رکھ سکا؟
امام خطابی کی اس توجیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حالت کفر میں کی گئی برائیوں پر اس کو ڈانٹا جائے گا اور حالت اسلام میں کی گئی برائیوں پر اس کا مواخذہ کیا جائے گا۔ لیکن اس حدیث کی درج ذیل تفصیل راجح ہے: «وَمَنْ أَسَاءَ فِي الإِسلام، أُخِذ بالأول والآخر» جو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی برائیاں کرتا رہتا ہے، اس سے پہلے اور پچھلے (سب) گناہوں کی پوچھ کچھ ہو گی) سے مراد کفر ہے، کیونکہ وہ سب سے بڑی برائی اور سنگین نافرمانی ہے۔
پس اس حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ جو آدمی مشرّف باسلام ہونے کے بعد مرتد ہو جاتا اور حالت کفر میں ہی مر جاتا ہے تو اسے یوں سمجھا جائے گا کہ گویا کہ اس نے اسلام قبول کیا ہی نہیں تھا، ایسے آدمی کی زندگی کی تمام برائیوں پر اس کا مؤاخذہ کیا جائے گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس حديث كو «اكبر الكبائر الشرك» والی حدیث کے بعد ذکر کیا اور دونوں کے مرتدین کے ابواب میں درج کیا۔
ابن بطال نے مہلب کا یہ قول نقل کیا: اس حدیث کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ جو آدمی قبولیت اسلام کے بعد احکام اسلام اور شرائط اسلام کی خوب محافظت کرتا ہے، اس سے دور جاہلیت کی بدعملیوں کا مواخذہ نہیں ہو گا، لیکن جو آدمی توحید کو ترک کر دیتا ہے، سابقہ تمام برائیوں پر اس کی گرفت کی جائے گی۔
ابن بطال کہتے ہیں: میں نے کئی علمائے کرام کے سامنے یہ حدیث پیش کی، سب نے کہا کہ اس حدیث کا وہی مفہوم ہے، جو مہلب نے بیان کیا، اس میں جس برائی کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد کفر ہے۔ [فتح الباري: 12 - 329 - 330]
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 50