Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
اگر کوئی مسلمان ادائیگی حج کے بعد مرتد ہو کر پھر مسلمان ہو جائے تو کیا سابقہ حج اسے کفایت کرے گا؟
حدیث نمبر: 48
-" أسلمت على ما أسلفت من خير".
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جو نیکیاں کر چکے ہو، ان سمیت اسلام لائے ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏أخرجه الشيخان وغيرهما» ‏‏‏‏

سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 48 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 48  
فوائد:
حکیم بن حزام کافر تھے، جب وہ مسلمان ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ مژدہ سنایا کہ ان کی حالت کفر میں کی گئی نیکیاں بھی محفوظ کر لی گئی ہیں۔
امام البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: اس حدیث کی روشنی میں یہ کہنا درست ثابت ہوا کہ جب کافر اور مرتد اسلام قبول کرتے ہیں، تو ان کی سابقہ زندگیوں میں کی گئی نیکیاں بھی ان کے حق میں ذخیرہ کر لی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص حالت اسلام میں ادائیگی حج کے بعد مرتد ہو کر پھر مسلمان ہو جاتا ہے تو اس کا حج ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی کافر حالت کفر میں حج ادا کرنے کے بعد مشرف باسلام ہوتا ہے تو اس کا حج اسے کفایت نہیں کرتا، کیونکہ اس کا حج شریعت اسلامیہ کے احکام کے مطابق ادا نہیں کیا جاتا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌ» جس کسی نے ایسا عمل کیا، جس پر (ہمارے دین) کا معاملہ نہ تو وہ مردود ہوگا۔
جو لوگ مرتد کے حج کے ضائع ہو جانے کا دعوی کرتے ہیں، ان کو چاہیے کہ اس کے شادی شدہ ہونے، اس کی تین طلاقوں، اس کی خرید و فروخت کے معاملات اور اس کے عطیوں کو ساقط اور غیر معتبر سمجھیں، کیونکہ یہ سارے اسلامی احکام کے مطابق طے پائے تھے۔ لیکن ان میں کوئی بھی ان امور کے غیر معتبر ہونے کا قائل نہیں ہے، سو معلوم ہوا کہ حج کے بارے میں ان کا قول فاسد ہے۔
اس بحث کے بعد ہم آپ کی توجہ درج ذیل حدیث کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے:
«إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَتَهُ يُعْطى بِهَا، وَفِي رَوَايَة: يُثَابُ عَلَيْهَا الرِزْقُ فِى الدُّنْيَا، وَيَجْزِى بِهَا الآخِرَةِ، وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعِمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلَّهِ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى إِذَا أَفْضَى إِلَى الآخِرَةِ، لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُجْزَى بِهَا .» [صحيحه: 53]
اللہ تعالی نیکی کے سلسلے میں مومن پر ظلم نہیں کرتا، اس نیکی کی وجہ سے اسے دنیا میں رزق عطا کیا جاتا ہے اور آخرت میں ثواب دیا جاتا ہے، لیکن کافرکو اس کی نیکیوں کا ثواب دنیا میں کھلا دیا جاتا ہے، جب وہ آخرت تک رسائی حاصل کرتا ہے تو اس کی کوئی ایسی نیکی (باقی ہی) نہیں ہوتی کہ اسے اس کا صلہ دیا جا سکے۔
اس حدیث مبارکہ میں اس کافر کا ذکر ہے، جس نے اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق کافر مرنا ہوتا ہے، کیونکہ اسی حدیث میں یہ اشارہ موجود ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حتی کہ جب وہ کافر آخرت تک پہنچتا ہے تو اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوتی کہ اسے اس کا صلہ دیا جا سکے۔
رہا مسئلہ اس کافر کا، جس نے مسلمان ہو کر مومن مرنا ہوتا ہے، تو اس کی حالت کفر میں کی گئی نیکیاں ضائع نہیں ہوتیں اور اسے آخرت میں ان کا بدلہ دیا جاتا ہے، جیسا کہ مختلف احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ [صحيحه: 248]
   سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 48