- (من صام رمضان، وصلى الصلوات [الخمس]، وحج البيت- لا ادري اذكر الزكاة ام لا؟ -؛ إلا كان حقا على الله ان يغفر له، إن هاجر في سبيل الله، او مكث بارضه التي ولد بها، قال معاذ: الا اخبر بهذا الناس؟! فقال: ذر الناس [يا معاذ] يعملون).- (من صام رمضان، وصلّى الصلوات [الخمس]، وحجَّ البيت- لا أدري أذكر الزكاة أم لا؟ -؛ إلا كان حقاً على الله أن يغفر له، إن هاجر في سبيل الله، أو مكث بأرضه التي ولد بها، قال معاذٌ: ألا أُخبر بهذا الناس؟! فقال: ذرِ الناس [يا معاذُ] يعملون).
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے، پانچوں نمازیں پڑھیں اور بیت اللہ کا حج کیا۔ راوی کہتا ہے میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کا ذکر کیا تھا یا نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے معاف کر دے، وہ اللہ کے راستے میں ہجرت کرے یا اپنی جائے پیدائش میں ٹھہرا رہے۔“ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں لوگوں کو (اس حدیث) کی خبر دے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دو معاذ! تاکہ وہ (مزید) عمل کرتے رہیں۔“
हज़रत मआज़ बिन जबल रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है, नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जिस ने रमज़ान के रोज़े रखे, पांचों नमाज़ें पढ़ीं और बेतुल्लाह का हज्ज किया। रिवायत करने वाला केहता है मैं नहीं जानता आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने ज़कात का बयान किया था या नहीं। तो अल्लाह तआला पर हक़ है कि उसे क्षमा कर दे, वह अल्लाह के रस्ते में हिजरत करे या अपने जन्मस्थान में ठहरा रहे।” हज़रत मआज़ रज़ि अल्लाहु अन्ह ने कहा ! क्या मैं लोगों को (इस हदीस) की ख़बर देदूँ ? आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “रहने दो मआज़ ! ताकि वे (अधिक) कर्म करते रहें।”
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3229
قال الشيخ الألباني: - (من صام رمضان، وصلّى الصلوات [الخمس] ، وحجَّ البيت- لا أدري أذكر الزكاة أم لا؟ -؛ إلا كان حقاً على الله أن يغفر له، إن هاجر في سبيل الله، أو مكث بأرضه التي ولد بها، قال معاذٌ: ألا أُخبر بهذا الناس؟! فقال: ذرِ الناس [يا معاذُ] يعملون) . _____________________ أخرجه الترمذي (2530) ، وأحمد (5/ 232 و 240- 241) ، والبزار (1/23/ 26) عن عبد العزيز بن محمد عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسارعن معاذ بن جبل مرفوعاً. قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات من رجال مسلم، لولا أنه منقطع؛ فقد قال الترمذي عقبه: "عطاء لم يدرك معاذ بن جبل، ومعاذ قديم الموت، مات في خلافة عمر" قلت: مات سنة (18) كما جزم به في "التقريب "، وعطاء كانت ولادته سنة (19) ، وعليه؛ فقول الترمذي المذكور: " ... لم يدرك معاذاً" أدق من قول الحافظ في "التهذيب ": "وفي سماعه من معاذ نظر"! وذلك " لأنه يفيد بمفهومه أنه أدركه؛ وليس كذلك. ثم وجدت للحديث شاهداً من حديث أبي هريرة عند البخاري وغيره؛ وهو مخرج فيما تقدم برقم (921) . * __________جزء : 7 /صفحہ : 699__________ ¤
في الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين الأرض والسماء الفردوس أعلاها درجة منها تفجر أنهار الجنة الأربعة ومن فوقها يكون العرش فإذا سألتم الله فسلوه الفردوس
من صام رمضان، وصلى الصلوات [الخمس]، وحج البيت- لا ادري اذكر الزكاة ام لا؟ -؛ إلا كان حقا على الله ان يغفر له، إن هاجر في سبيل الله، او مكث بارضه التي ولد بها، قال معاذ: الا اخبر بهذا الناس؟! فقال: ذر الناس [يا معاذ] يعملون
الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 478
� فوائد و مسائل اس حدیث میں یہ نقطہ موجود ہے کہ جس حدیث کے بیان کرنے سے لوگ عملاً کوتاہی کر سکتے ہوں، یا غلط فہمی اور فکری انتشار میں پڑ سکتے ہوں تو اسے بیان نہ کیا جائے، ہاں اگر سامعین احادیث کی روح اور مقصد کو سمجھنے والے ہوں تو ان کے سامنے وضاحت کی جا سکتی ہے۔ مذکورہ اس حدیث کا مفہوم ہے کہ روزے، نمازیں اور حج انتہائی افضل اعمال ہیں اور مغفرت الہٰی کا بہت بڑا سبب ہیں، لیکن اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے علاوہ باقی ارکان اسلام اور اعمال صالحہ کو نظر انداز کر دیا جائے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 478
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 47
´اسلام کے بعض اوصاف` «. . . وَعَن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئا يُصَلِّي الْخَمْسَ وَيَصُومُ رَمَضَانَ غُفِرَ لَهُ قُلْتُ أَفَلَا أُبَشِّرُهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ دَعْهُمْ يَعْمَلُوا» . . .» ”. . . سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص دنیا سے رخصت ہو کر اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ زندگی بھی میں اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا۔ اور پانچوں وقت نماز پڑھتا رہا اور رمضان کے روزے بھی رکھتا رہا تو اس کی بخشش کر دی جائے گی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں لوگوں کو اس بات کی خوشخبری نہ سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نہیں بلکہ) لوگوں کو چھوڑ دو عمل کرتے رہیں . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 47]
تحقیق وتخریج: صحیح ہے۔ اس روایت کو ترمذی [2530] نے بھی «زيد بن اسلم عن عطاء بن يسار عن معاذ بن جبل رضي الله عنه» کی سند سے بیان کیا ہے۔ یہ سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ عطاء بن یسار تابعی رحمہ اللہ کی سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ لیکن صحیح بخاری [7423] و مسند احمد [339، 335/6] وغیرہما میں اس حدیث کے شواہد ہیں، جن کی بناء پر یہ روایت صحیح لغیرہ ہے۔ نیز دیکھئے: اضواء المصابیح 25، 27، 29، الحدیث: 17 ص 4، 5، الحدیث 18 ص 2، 3۔