- (الا تبايعون رسول الله؟! - فرددها ثلاث مرات-: على ان تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا، والصلوات الخمس- واسر كلمة خفية-[و] ان لا تسالوا الناس شيئا).- (ألا تُبايعون رسولَ الله؟! - فردَّدها ثلاث مرات-: على أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئاً، والصلوات الخمس- وأسرَّ كلمة خفيَّة-[و] أن لا تسألوا الناس شيئاً).
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم سات، آٹھ یا نو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا تم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیعت نہیں کرتے؟“ ہم نے کہا: ہم نے تھوڑا عرصہ پہلے ہی آپ کی بیعت کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیعت نہیں کرتے؟“ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم تو آپ کی بیعت کر چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تیسری دفعہ) فرمایا: ”کیا تم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیعت نہیں کرتے؟“ سو ہم نے بیعت کے لیے اپنے ہاتھ پھیلا دیے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت تو کر چکے ہیں، اس لیے (آپ وضاحت کیجیئے) اب کس چیز پر بیعت کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات پر کہ تم ایک اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، پانچ نمازیں پڑھو گے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو گے۔“ اور ایک بات آہستہ انداز میں ارشاد فرمائی کہ ”لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے۔“ میں نے دیکھا کہ اگر ان مذکورہ (بیعت کندگان) میں سے بعض افراد کا کوڑا بھی زمین پر گر جاتا تو وہ کسی سے سوال نہیں کرتے تھے کہ وہ اسے اٹھا کر انہیں پکڑا دے (بلکہ وہ خود اٹھا لیتے تھے)۔
हज़रत औफ़ बिन मालिक रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं ! हम सात, आठ या नो आदमी रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास मौजूद थे। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “क्या तुम रसूल अल्लाह (सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम) की बैअत नहीं करते ?” हम ने कहा ! हम ने थोड़ा समय पहले ही आप की बैअत की थी। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “क्या तुम रसूल अल्लाह (सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम) की बैअत नहीं करते ?” हम ने कहा कि ऐ अल्लाह के रसूल ! हम तो आप की बैअत कर चुके हैं। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने (तीसरी दफ़ा) फ़रमाया ! “क्या तुम रसूल अल्लाह (सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम) की बैअत नहीं करते ?” तो हम ने बैअत के लिए अपने हाथ फैला दिए और कहा ! ऐ अल्लाह के रसूल ! हम आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की बैअत तो कर चुके हैं, इस लिए अब किस चीज़ पर बैअत करें ? आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “इस बात पर कि तुम एक अल्लाह की इबादत करो गे, उस के साथ किसी को शरीक (भागीदार) नहीं ठहराओ गे, पांच नमाज़ें पढ़ो गे और अल्लाह तआला की आज्ञाकारी करो गे।” और एक बात धीरे अंदाज़ से कही कि “लोगों से किसी चीज़ का सवाल नहीं करो गे।” मैं ने देखा कि उन बैअत करने वालों में से कुछ लोगों का कोड़ा भी ज़मीन पर गिर जाता तो वह किसी से सवाल नहीं करते थे कि वह इसे उठा कर उन्हें पकड़ा दे (बल्कि वे ख़ुद उठा लेते थे)।
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3600
قال الشيخ الألباني: - (ألا تُبايعون رسولَ الله؟! - فردَّدها ثلاث مرات-: على أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئاً، والصلوات الخمس- وأسرَّ كلمة خفيَّة-[و] أن لا تسألوا الناس شيئاً) . _____________________ رواه عنه - صلى الله عليه وسلم -: عوف بن مالك؛ ورواه عن عوف ثلاثة: 1- أبو مسلم الخولاني: رواه مسلم (3/97) ، والنسائي (1/229) - واللفظ له -، وأبو داود (1642) ، وابن ماجه (2867) ، والطبراني في " الكبير" (18/ رقم 67) ، والمزي في "تهذيب الكمال " (34/292) من طريق أبي إدريس الخولاني عنه به. 2- أبو إدريس الخولاني: رواه ابن حبان (3385) ، والطبراني في "الكبير" (18/ رقم 68) من طريق ربيعة بن يزيد عنه به. قلت: ولا تعارض بين الطريقين؛ فالعلو والنزول من الطرائق المعروفة عند أهل الحديث؛ فكون أبي إدريس سمعه من أبي مسلم: لا يُعارض سماعه من عوف مبا شرة. 3- ربيعة بن لقيط: رواه أحمد (6/27) ، والطبراني (18/ رقم130) من طريق قتيبة بن سعيد عن ابن لهيعة عن يزيد بن أبي حبيب عنه به مختصراً بنحوه. ورواية قتيبة عن ابن لهيعة مقبولة؛ كما نبهت عليه في مواضع من كتاباتي أخيراً. __________جزء : 7 /صفحہ : 1594__________ وربيعة بن لقيط وثقه ابن حبان والعجلي، وروى عنه جماعة. فالسند جيد- إن شاء الله-. ولفظ حديث الترجمة من رواية مسلم أطول مما أوردناه؛ فهو عن أبي مسلم الخولاني قال: حدثني الحبيب الأمين- أما هو؛ فحبيب إليّ، وأما هو عندي؛ فأمين- عوف بن مالك الأشجعي قال: كنا عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم - تسعة أو ثمانية أو سبعة، فقال: "ألا تبايعون رسول الله؟! "؛ وكنا حديث عهد ببيعة، فقلنا: قد بايعناك يا رسول الله! ثم قال: "ألا تبايعون رسول الله؟! "؛ فقلنا: قد بايعناك يا رسول الله! ثم قال: "ألا تبايعون رسول الله؟! "؛ قال: فبسطنا أيدينا وقلنا: قد بايعناك يا رسول الله! فعلام نبايعك؟ قال: "على أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئاً، والصلوات الخمس وتطيعوا- وأسر كلمة خفية- ولا تساْلوا الناس شيئاً". فلقد رأيت بعض أولئك النفر يسقط سوط أحدهم، فما يسأل أحداً يناوله إياه. * ¤
الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 472
� فوائد و مسائل: سبحان اللہ! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر کے مشرف باسلام ہو چکے ہیں۔ لیکن انتہائی اہم امور کی نشاندہی اور تاکید کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ بیعت لینے کا اعلان کر دیا۔ پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جذبہ اطاعت رسول دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اس حد تک قدردانی کی کہ اگر کوئی سواری پر سوار ہوتا اور اس کا کوڑا یا لاٹھی گر جاتی تو فرمودہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں سواری سے اتر کر اٹھا لیتا، لیکن کسی سے خدمت لینا گوارہ نہ کرتا۔ «لا تسألوا»
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 472
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 461
´پانچوں نمازوں پر بیعت کرنے کا بیان۔` عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟“ آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا، تو ہم سب نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور آپ سے بیعت کی، پھر ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ سے بیعت تو کر لی، لیکن یہ بیعت کس چیز پر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بیعت اس بات پر ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں نمازیں ادا کرو گے“، اور آپ نے ایک اور بات آہستہ سے کہی کہ ”لوگوں سے کچھ مانگو گے نہیں۔“[سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 461]
461 ۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس میں چار قسم کی بیعت رائج تھی: ٭بیعت اسلام، یعنی اسلام لاتے وقت۔ ٭ہجرت کرنے کے لیے بیعت۔ ٭بیعت جہاد، یعنی کسی لڑائی کے وقت، مثلاً: صلح حدیبیہ کے وقت۔ ٭بیعت اطاعت، یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کی پابندی کے لیے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہے۔ پھر بیعت اسلام کی بجائے بیعت خلافت شروع ہو گئی۔ بیعت جہاد قائم رہی، البتہ بیعت اطاعت ختم ہو گئی، گویا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی۔ صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں ایسا ہی رہا۔ بعد میں صوفیائے کرام نے بیعت لینا شروع کر دی، اپنے سلسلے میں داخل کرنے کے لیے اور اپنی ہر بات کی اطاعت کرانے کے لیے، یہ ایک نئی چیز ہے، اگر یہ بیعت اطاعتِ شریعت ہے تو جواز ہو سکتا ہے مگر صحابہ و تابعین نے ایسے نہیں کیا، لہٰذا مستحسن نہیں۔ اور اگر یہ اپنی اطاعت کی بیعت ہے تو ممنوع ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی مطاع نہیں کہ اس کی اطاعت مطلقاً جائز ہو۔ بیعت سے متعلق دیگر احکام و مسائل بالتفصیل کتاب البیعۃ میں ملاحظہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 461
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1642
´بھیک مانگنے کی کراہت کا بیان۔` ابومسلم خولانی کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے پیارے اور امانت دار دوست عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سات، آٹھ یا نو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ نے فرمایا: ”کیا تم لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟“، جب کہ ہم ابھی بیعت کر چکے تھے، ہم نے کہا: ہم تو آپ سے بیعت کر چکے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جملہ تین بار دہرایا چنانچہ ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دئیے اور آپ سے بیعت کی، ایک شخص بولا: اللہ کے رسول! ہم ابھی بیعت کر چکے ہیں؟ اب کس بات کی آپ سے بیعت کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں نمازیں پڑھو گے اور (حکم) سنو گے اور اطاعت کرو گے“، ایک بات آپ نے آہستہ سے فرمائی، فرمایا: ”لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو گے“، چنانچہ ان لوگوں میں سے بعض کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا کوڑا زمین پر گر جاتا تو وہ کسی سے اتنا بھی سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کر دیدے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ہشام کی حدیث سعید کے علاوہ کسی اور نے بیان نہیں کی۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1642]
1642. اردو حاشیہ: ➊ بھیک مانگنا اور اس کو اپنی عادت بنالینا عزت وقار اخلاق اورشرع ہر اعتبار سے بہت بُری عادت ہے۔عام ضرورت کی اشیاء بھی مانگ کرگزارہ کرنا بہت بُری اخلاقی گراوٹ کی علامت ہے۔ ➋ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کاپاس عہد بے مثل اور زریں کلمات سے لکھنے کے قابل ہے۔ ➌ بیعت اس عہد معاہدے کوکہتے ہیں۔جودو افراد میں طے پایاجاتا ہے۔ اسلام میں ایک بیعت اسلام ہے۔ دوسری بیعت جہاد اور تیسری بیعت استرشاد وتوبہ ہے۔خیر القرون میں پہلی دو بیعتوں کا ثبوت ملتاہے۔ خلفائے راشدین ااور ان کے بعد ایک زمانے تک صرف یہی بیعتیں جاری رہی ہیں۔تیسری صرف رسول اللہ ﷺ سے ہی خاص سمجھی گئی ہے۔ مگر بعض صالحین اس تیسری بعیت کے قائل وفائل ہیں۔ جس کی شرعی اہمیت محل نظر ہے۔ اور اہل بدعت نے جو اس میں غلو کیا ہے اللہ کی پناہ وہ سراسربدعت ہے۔ خواہ وہ کیسا ہی ظلم کیوں نہ کریں۔الا یہ کہ (کفر بواح) صریح کفر کا ارتکاب کریں۔اس مسئلے کی تفصیل کےلئے حاکم ومحکوم کے حقوق وفرائض اور روابط کا موضوع دیکھا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1642
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2867
´بیعت کا بیان۔` عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم سات یا آٹھ یا نو آدمی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم لوگ اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے“؟ ہم نے بیعت کے لیے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے (بیعت کرنے کے بعد) ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت تو کر چکے لیکن یہ کس بات پر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، پانچ وقت کی نماز کا اہتمام کرو، حکم سنو اور مانو“، پھر ایک بات چپکے سے فرمائی: ”لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو“، راوی کا بیان ہے کہ (اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2867]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) حضرت ابومسلم ؒ کی اپنے استاد کی تعریف کرنے سے سلف صالحین میں استاد کے احترام اور ان کی محبت کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ طالب علم کا اپنے استاد سے تعلق ایسا ہی ہونا چاہیے۔
(2) بیعت اسلام یا بیعت خلافت کے علاوہ کسی نیک کام کے التزام یا گناہ سے اجتناب کے لیے بھی کسی نیک عالم کے ہاتھ بیعت کی جا سکتی ہے۔ اس بیعت کی حیثیت محض ایک وعدے کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وعدہ کرنے والے کے لیے نیکی پر قائم رہنے یا گناہ سے بچنے میں آسانی ہوتی ہے۔
(3) مروجہ خانقاہی نظام میں بہت سی غیر شرعی اشیاء استعمال ہوچکی ہیں۔ اس بیعت سے اس مکمل نظام کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
(4) خود دا ری ایک مطلوب اسلامی وصف ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2867
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2403
ابو مسلم خالانی کہتے ہیں مجھے محبوب قابل اعتماد جو مجھے محبوب بھی ہے اور میرے نزدیک امانتدار بھی ہے عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نو آٹھ یا ساتھ آدمی تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟ اور ہم نے نئی نئی بیعت کی تھی۔ تو ہم نے عرض کیاﷺ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم آپﷺ سے بیعت کر چکے ہیں آپﷺ نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2403]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عہد و پیمان باندھتے تھے یا جس چیز کی بیعت کرتے تھے اس کو پورے اہتمام اور انتہائی جانفشانی سے کامل ترین انداز میں پورا کرنے کی کوشش فرماتے تھے اور ان کا یہی جذبہ اطاعت اور نہایت درجہ کی عفت و پرہیزگاری ان کے لیے دنیوی اور اخروی کامیابی و کامرانی کا باعث بنی اور آج کے مسلمانوں کو بھی اللہ اس کی توفیق ارزاں فرمائے۔ (آمین)