سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4035 :ترقیم البانی
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4103 :حدیث نمبر

سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
तौहीद पर ईमान, दीन और तक़दीर
20. ایصال ثواب کی صورتیں
सवाब कैसे पहुंचाया जा सकता है
حدیث نمبر: 41
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" اما ابوك فلو كان اقر بالتوحيد، فصمت وتصدقت عنه نفعه ذلك".-" أما أبوك فلو كان أقر بالتوحيد، فصمت وتصدقت عنه نفعه ذلك".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عاص بن وائل نے دور جاہلیت میں نذر مانی کہ وہ سو اونٹ ذبح کرے گا (لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے مر گیا)، اس کے بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دئیے تھے اور دوسرے بیٹے سیدنا عمرو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تیرے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا اور تو اس کی طرف سے روزہ رکھتا یا صدقہ کرتا تو اسے فائدہ ہوتا۔
हज़रत अब्दुल्लाह बिन अमरो रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं कि आस बिन वाइल ने जाहिलियत के समय में नज़र मानी कि वह सौ ऊंट ज़िबह करेगा (लेकिन वह नज़र पूरी करने से पहले मर गया) उस के बेटे हिशाम बिन आस ने अपने हिस्से के पचास ऊंट ज़िबह कर दिए थे और दूसरे बेटे हज़रत अमरो ने नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से इसके बारे में पूछा, आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “अगर तेरे पिता ने अल्लाह को एक और अकेला माना होता यानि इस्लाम ले आता और तू उसकी ओर से रोज़ा रखता या सदक़ह करता तो उसे लाभ होता।”
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 484

تخریج الحدیث: «أخرجه الإمام أحمد: 2/ 182» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني:
- " أما أبوك فلو كان أقر بالتوحيد، فصمت وتصدقت عنه نفعه ذلك ".
‏‏‏‏_____________________
‏‏‏‏
‏‏‏‏أخرجه الإمام أحمد (2 / 182) حدثنا هشيم أخبرنا حجاج حدثنا عمرو بن شعيب
‏‏‏‏عن أبيه عن جده.
‏‏‏‏" أن العاص بن وائل نذر في الجاهلية أن ينحر مائة بدنة، وأن هشام ابن العاص
‏‏‏‏نحر حصته خمسين بدنة، وأن عمرا سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك؟
‏‏‏‏فقال " فذكره.
‏‏‏‏قلت: وهذا إسناد صحيح رجاله كلهم ثقات على الخلاف المعروف في عمرو ابن شعيب
‏‏‏‏عن أبيه عن جده. وهشيم والحجاج كلاهما مدلس، ولكنهما قد صرحا بالتحديث،
‏‏‏‏فزالت شبهة تدليسهما. ومن هنا تعلم أن قول الهيثمي في " مجمع الزوائد "
‏‏‏‏(4 / 192) :
‏‏‏‏" رواه أحمد، وفيه الحجاج بن أرطأة وهو مدلس ".
‏‏‏‏فليس دقيقا، فإنه يوهم أنه قد عنعنه، وليس كذلك كما ترى.
‏‏‏‏والحديث دليل واضح على أن الصدقة والصوم تلحق الوالد ومثله الوالدة بعد
‏‏‏‏موتهما إذا كانا مسلمين ويصل إليهما ثوابها، بدون وصية منهما. ولما كان
‏‏‏‏الولد من
‏‏‏‏__________جزء : 1 /صفحہ : 873__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏سعي الوالدين، فهو داخل في عموم قوله تعالى (وأن ليس للإنسان إلا
‏‏‏‏ما سعى) فلا داعي إلى تخصيص هذا العموم بالحديث وما ورد في معناه في الباب،
‏‏‏‏مما أورده المجد ابن تيمية في " المنتقى " كما فعل البعض.
‏‏‏‏واعلم أن كل الأحاديث التي ساقها في الباب هي خاصة بالأب أو الأم من الولد،
‏‏‏‏فالاستدلال بها على وصول ثواب القرب إلى جميع الموتى كما ترجم لها المجد ابن
‏‏‏‏تيمية بقوله " باب وصول ثواب القرب المهداة إلى الموتى " غير صحيح لأن الدعوى
‏‏‏‏أعم من الدليل، ولم يأت دليل يدل دلالة عامة على انتفاع عموم الموتى من عموم
‏‏‏‏أعمال الخير التي تهدى إليهم من الأحياء، اللهم إلا في أمور خاصة ذكرها
‏‏‏‏الشوكاني في " نيل الأوطار " (4 / 78 - 80) ، ثم الكاتب في كتابه
‏‏‏‏" أحكام الجنائز وبدعها " يسر الله إتمام طبعه، من ذلك الدعاء للموتى فإنه
‏‏‏‏ينفعهم إذا استجابه الله تبارك وتعالى. فاحفظ هذا تنج من الإفراط والتفريط
‏‏‏‏في هذه المسألة، وخلاصة ذلك أن للولد أن يتصدق ويصوم ويحج ويعتمر ويقرأ
‏‏‏‏القرآن عن والديه لأنه من سعيهما، وليس له ذلك عن غيرهما إلا ما خصه الدليل
‏‏‏‏مما سبقت الإشارة إليه. والله أعلم. ¤

سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 41 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 41  
فوائد:
امام البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: یہ حدیث اس امر کی واضح دلیل ہے کہ ایصالِ ثواب کے لیے مسلمان والدین کی طرف سے صدقہ کرنا اور روزے رکھنا درست ہیں، اگرچہ انھوں نے ان امور کی وصیت نہ کی ہو۔ چونکہ اولاد والدین کی کمائی ہوتی ہے، اس لیے والدین کے حق میں اولاد کے اعمال خیر اس آیت کے عموم میں داخل ہیں:
«وَان لَّيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى» [سوره نجم 39] اور انسان کے لیے نہیں ہے، مگر جو وہ خود کوشش کرے۔
اور اس لیے اولاد اور والدین کے بارے میں جتنی احادیث وارد ہوئی ہیں، ان کو خاص اور عام کے باب میں لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس موضوع کی تمام احادیث اولاد اور والدین کے ساتھ خاص ہیں، لیکن مجد بن تیمیہ نے [المنتقي] میں ان خاص احادیث سے یہ استدلال کیا کہ کوئی آدمی ایصال ثواب کے لیے کسی میت کے حق میں اس قسم کے نیک کام کر سکتا ہے۔ لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ دعوی عام ہے کہ ہر کوئی کسی کے حق میں یہ اعمالِ صالحہ سرانجام دے سکتا ہے اور دلائل خاص ہیں۔ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو اس عموم کا فائدہ دے کہ ہر میت کی طرف سے اعمال خیر سر انجام دیئے جا سکتے ہیں، مگر چند مخصوص امور، جن کا ذکر امام شوکانی رحمہ اللہ نے [نيل الاوطار: 78/4 - 80] میں اور راقم نے [احكام الجنائز و بدعها] میں کیا ہے۔ [صحيحه: 484]
امام البانی رحمہ اللہ نے [احكام الجنائز وبدعها: ص 168 - 178] میں «ما ينتفع به الميت» (میت کو جن امور کے ذریعے فائدہ پہنچتا ہے) کے عنوان کے تحت نہایت مفید بحث کی ہے، ہم صرف اس کا خلاصہ نقل کریں گے، شائقین کو خود مطالعہ کر لینا چاہیے۔
وہ فرماتے ہیں: درج امور میت کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں:
➊ مسلمان کا اس کے حق میں دعا کرنا۔
➋ میت کے ولی کا اس کی طرف سے نذر کے روزے رکھنا۔
➌ کسی شخص کا میت کا قرضہ چکا دینا۔
➍ نیک اولاد کے اعمال صالحہ کا ثواب ان کے والدین کو پہنچتا رہے گا، کیونکہ اولاد، والدین کی اپنی کمائی ہوتی ہے، لیکن اس سلسلے میں اولاد کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
➎ وہ آثار مصالحہ اور صدقات جاریہ، جو خود میت سر انجام دے گیا ہو۔ [احكام الجنائز وبدعها: ص168 ـ 178]
ہمارے ہاں ایصالِ ثواب کے لیے مختلف معین دنوں میں قل شریف اور ختم شریف وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جو کہ بدعت کی اقسام میں سے ہے، ایصال ثواب کا یہ انداز کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
   سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 41   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.