سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
ایصال ثواب کی صورتیں
حدیث نمبر: 41
-" أما أبوك فلو كان أقر بالتوحيد، فصمت وتصدقت عنه نفعه ذلك".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عاص بن وائل نے دور جاہلیت میں نذر مانی کہ وہ سو اونٹ ذبح کرے گا (لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے مر گیا)، اس کے بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دئیے تھے اور دوسرے بیٹے سیدنا عمرو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیرے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا اور تو اس کی طرف سے روزہ رکھتا یا صدقہ کرتا تو اسے فائدہ ہوتا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه الإمام أحمد: 2/ 182»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 41 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 41
فوائد:
امام البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: یہ حدیث اس امر کی واضح دلیل ہے کہ ایصالِ ثواب کے لیے مسلمان والدین کی طرف سے صدقہ کرنا اور روزے رکھنا درست ہیں، اگرچہ انھوں نے ان امور کی وصیت نہ کی ہو۔ چونکہ اولاد والدین کی کمائی ہوتی ہے، اس لیے والدین کے حق میں اولاد کے اعمال خیر اس آیت کے عموم میں داخل ہیں:
«وَان لَّيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى» [سوره نجم 39] ”اور انسان کے لیے نہیں ہے، مگر جو وہ خود کوشش کرے۔“
اور اس لیے اولاد اور والدین کے بارے میں جتنی احادیث وارد ہوئی ہیں، ان کو خاص اور عام کے باب میں لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس موضوع کی تمام احادیث اولاد اور والدین کے ساتھ خاص ہیں، لیکن مجد بن تیمیہ نے [المنتقي] میں ان خاص احادیث سے یہ استدلال کیا کہ کوئی آدمی ایصال ثواب کے لیے کسی میت کے حق میں اس قسم کے نیک کام کر سکتا ہے۔ لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ دعوی عام ہے کہ ہر کوئی کسی کے حق میں یہ اعمالِ صالحہ سرانجام دے سکتا ہے اور دلائل خاص ہیں۔ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو اس عموم کا فائدہ دے کہ ہر میت کی طرف سے اعمال خیر سر انجام دیئے جا سکتے ہیں، مگر چند مخصوص امور، جن کا ذکر امام شوکانی رحمہ اللہ نے [نيل الاوطار: 78/4 - 80] میں اور راقم نے [احكام الجنائز و بدعها] میں کیا ہے۔ [صحيحه: 484]
امام البانی رحمہ اللہ نے [احكام الجنائز وبدعها: ص 168 - 178] میں «ما ينتفع به الميت» (میت کو جن امور کے ذریعے فائدہ پہنچتا ہے) کے عنوان کے تحت نہایت مفید بحث کی ہے، ہم صرف اس کا خلاصہ نقل کریں گے، شائقین کو خود مطالعہ کر لینا چاہیے۔
وہ فرماتے ہیں: درج امور میت کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں:
➊ مسلمان کا اس کے حق میں دعا کرنا۔
➋ میت کے ولی کا اس کی طرف سے نذر کے روزے رکھنا۔
➌ کسی شخص کا میت کا قرضہ چکا دینا۔
➍ نیک اولاد کے اعمال صالحہ کا ثواب ان کے والدین کو پہنچتا رہے گا، کیونکہ اولاد، والدین کی اپنی کمائی ہوتی ہے، لیکن اس سلسلے میں اولاد کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
➎ وہ آثار مصالحہ اور صدقات جاریہ، جو خود میت سر انجام دے گیا ہو۔ [احكام الجنائز وبدعها: ص168 ـ 178]
ہمارے ہاں ایصالِ ثواب کے لیے مختلف معین دنوں میں قل شریف اور ختم شریف وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جو کہ بدعت کی اقسام میں سے ہے، ایصال ثواب کا یہ انداز کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 41