-" إن الله تبارك وتعالى لا يقبل توبة عبد كفر بعد إسلامه".-" إن الله تبارك وتعالى لا يقبل توبة عبد كفر بعد إسلامه".
معاویہ بن حکیم بن حزام اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ اس بندے کی توبہ قبول نہیں کرتے جو اسلام کے بعد پھر کفر کر جاتا ہے۔“
मुआव्या बिन हकीम बिन हिज़ाम अपने पिता से रिवायत करते हैं कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “बेशक अल्लाह तआला उस बंदे की तौबा स्वीकार नहीं करता जो इस्लाम लाने के बाद फिर कुफ़्र करता है।”
قال الشيخ الألباني: - " إن الله تبارك وتعالى لا يقبل توبة عبد كفر بعد إسلامه ". _____________________ أخرجه أحمد (4 / 446 و 5 / 2 و 3) من طريق أبي قزعة الباهلي عن حكيم بن معاوية عن أبيه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم : فذكره. قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات، واسم أبي قزعة سويد بن حجير. __________جزء : 6 /صفحہ : 99__________ وفي لفظ له: " لا يقبل الله عز وجل من أحد توبة أشرك بعد إسلامه ". وتابعه عليه بهز بن حكيم عن أبيه به، إلا أنه قال: " عملا " مكان: " توبة ". أخرجه أحمد (5 / 5) . قلت: وبهز ثقة حجة، لاسيما في روايته عن أبيه، وفيها ما يفسر رواية أبي قزعة، ويزيل الإشكال الوارد على ظاهرها، فهي في ذلك كقوله تعالى: * (إن الذين كفروا بعد إيمانهم ثم ازدادوا كفرا لن تقبل توبتهم) * (آل عمران: 90) ولذلك أشكلت على كثير من المفسرين، لأنها بظاهرها مخالفة لما هو معلوم من الدين بالضرورة من قبول توبة الكافر، ومن الأدلة على ذلك قوله تعالى قبل الآية المذكورة: * (كيف يهدي الله قوما كفروا بعد إيمانهم) * إلى قوله: * ( أولئك جزاؤهم أن عليهم لعنة الله والملائكة والناس أجمعين. خالدين فيها ... ) * إلى قوله: * (إلا الذين تابوا من بعد ذلك وأصلحوا فإن الله غفور رحيم) * ( آل عمران: 86 - 89) فاضطربت أقوال المفسرين في التوفيق بين الآيتين، وإزالة الإشكال على أقوال كثيرة لا مجال لذكرها الآن، وإنما أذكر منها ما تأيد برواية بهز هذه، فإنها كما فسرت رواية أبي قزعة فهي أيضا تفسر الآية وتزيل الإشكال عنها. فكما أن معنى قوله في الحديث: " لا يقبل توبة عبد كفر بعد إسلامه "، أي توبته من ذنب في أثناء كفره، لأن التوبة من الذنب عمل، والشرك يحبطه كما قال تعالى: * (لئن أشركت ليحبطن عملك) * (الزمر: 65) فكذلك قوله تعالى في الآية: * (لن تقبل توبتهم) *، أي من ذنوبهم، وليس من كفرهم. وبهذا فسرها بعض السلف، فجاء في " تفسير روح المعاني " للعلامة الآلوسي (1 / 624) ما نصه بعد أن ذكر بعض الأقوال المشار إليها: __________جزء : 6 /صفحہ : 100__________ " وقيل: إن هذه التوبة لم تكن عن الكفر، وإنما هي عن ذنوب كانوا يفعلونها معه، فتابوا عنها مع إصرارهم على الكفر، فردت عليهم لذلك، ويؤيده ما أخرجه ابن جرير (¬1) عن أبي العالية قال: هؤلاء اليهود والنصارى كفروا بعد إيمانهم، ثم ازدادوا كفرا بذنوب أذنبوها، ثم ذهبوا يتوبون من تلك الذنوب في كفرهم، فلم تقبل توبتهم، ولو كانوا على الهدى قبلت، ولكنهم على ضلالة ". قلت: وهذا هو الذي اختاره إمام المفسرين ابن جرير رحمه الله تعالى، فليراجع كلامه من أراد زيادة تبصر وبيان. ¤
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 40 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 40
فوائد:
امام البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس حدیث کا یہ متن بیان کرنے میں بہز بن حکیم عن ابیہ [مسند احمد: 5/5] نے ابو قزعہ کی متابعت کی ہے، لیکن اس کی حدیث میں «تَوْبَةَ» کی بجائے «عملا» ہے۔
بہز بن حکیم ثقہ اور حجت ہے، بالخصوص جب وہ اپنے باپ سے روایت کر رہے ہوں، بہز کی روایت سے ابو قزعہ کی روایت کی تفسیر ہو رہی ہے اور اس پر وارد ہونے والے اشکال کو زائل کر رہی ہے، اس حدیث کا وہی مفہوم ہے جو اس آیت میں پیش کیا گیا ہے: «اِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتَهُمْ»[سورة آل عمران: 90] ”بیشک جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا اور پھر کفر میں زیادہ ہو گئے، ہرگز ان کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔“
اکثر مفسرین کو اس آیت کو سمجھنے میں اشکال ہوا ہے، کیونکہ دین اسلام کا حتمی قانون ہے کہ کافر اور مرتد کی توبہ قبول ہو جاتی ہے، لیکن یہ آیت ظاہری طور پر اس قاعدے کی مخالفت کر رہی ہے۔ سورۃ آل عمران میں پورا مضمون یوں بیان کیا گیا ہے۔ «كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٦﴾ أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴿٨٧﴾ خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ ﴿٨٨﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٨٩﴾ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ ﴿٩٠﴾ »[سورة آل عمران: 86 تا 90] ”اللہ تعالی اس قوم کو کیسے ہدایت دے گا، جو ایمان قبول کرنے اور رسول کے بر حق ہونے کی گواہی دینے کے بعد پھر کفر کر جائے اور اللہ تعالی ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ ان لوگوں کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر اللہ تعالی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے۔ یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کے لیے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ مگر وہ لوگ جو اس کے بعد تائب ہوئے اور (اپنی) اصلاح کی، پس بیشک اللہ تعالی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ بیشک جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا اور پھر کفر میں زیادہ ہو گئے، ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی اور یہی لوگ گمراہ ہیں۔“
قارئین کرام! غور فرمائیں کہ جہاں آیات (86، 87، 88، 90) میں توبہ کی نفی کی گئی ہے، وہاں آیت (89) میں توبہ کو ممکن قرار دے کر توبہ کرنے والوں کو مستثنی قراد دیا گیا ہے۔
ان دو قسم کی آیات میں پائے جانے والے ظاہری تعارض کو کیسے دور کیا جائے، ان میں جمع تطبیق کیسے ممکن ہے، اس اشکال کو کیسے دور کیا جائے؟ جوابا بہت سارے اقوال منظرِ عام پر آئے ہیں، اس مقام پر ان کو ذکر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
میرا خیال ہے کہ اگر بہز بن حکیم کی «عمله» الفاظ والی روایت کو سامنے رکھا جائے تو ابو قرعہ کی روایت اور ان آیات سے پیدا ہونے والا اشکال دور ہو جاتا ہے۔ پس ابو قزعہ کی حدیث «إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا يَقْبَلُ تَوْبَةَ عَبْدِ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ» کا مفہوم یہ ہو گا کہ جب ایسا آدمی دورانِ کفر کسی گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی قبول نہیں کرتے، کیونکہ توبہ بھی ایک عمل ہے اور شرک ہر قسم کے عمل کو ضائع کر دیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: «لئن اشْرَكُتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ»”اگر تو نے شرک کیا، تو تیرے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔“
اسی طرح سورۃ آل عمران کی آیت (90) میں «لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُم» کا بھی یہی مفہوم ہے کہ ایسے کفر کی حالت میں بعض گناہوں سے توبہ کرنا چاہیں تو ان کی توبہ قبول نہیں ہو گی۔
خلاصہ کلام یہ ہے آیات و احادیث میں جس توبہ کی قبولیت کی نفی کی گئی ہے، اس سے مراد حالت کفر میں بعض گناہوں سے توبہ کرنا ہے، نہ کہ کفر سے توبہ کرنا، کیونکہ جو کافر یا مرتد جب بھی اپنے کفر و شرک سے توبہ کرے گا، اس کی توبہ فوراً قبول کی جائے گی۔ بعض سلف نے بھی ایسی آیات کی یہی تفسیر بیان کی ہے، جیسا کہ علامہ آلوسی نے [تفسير روح المعاني] میں مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد کہا:
ایک قول یہ بھی ہے: بعض لوگ کفر کی حالت میں بعض گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں، پھر ان پر نادم ہو کر ان سے توبہ کرتے ہیں، لیکن کفر پر مصرّ رہتے ہیں۔ اس آیت میں اسی قسم کی توبہ کی قبولیت کی نفی کی گئی ہے۔ اس قول کی تائید ابو العالیہ کی تفسیر سے بھی ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں: یہود و نصاری نے ایمان کے بعد کفر کیا، پھر ایسے ایسے گناہوں کا ارتکاب کیا، جن کی وجہ سے ان کے کفر میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ پھر ان لوگوں نے اپنے کفر پر برقرار رہتے ہوئے بعض گناہوں سے توبہ کرنا چاہی، لیکن ان کی توبہ قبول نہ ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ گمراہ تھے، اگر ہدایت پر ہوتے تو ان کی توبہ قبول ہو جاتی۔
میں (البانی) کہتا ہوں: اسی قول کو امام المفسرین ابن جریر رحمہ اللہ تعالی نے اختیار کیا، مزید معلومات کا خواہش مندان کی تفسیر کا خود مطالعہ کرئے۔ [صحيحه: 2545]
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 40