4981. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہر کسی کو ایسے ایسے معجزات عطا کیے گئے ہیں جنہیں دیکھ کر لوگ ایمان لاتے رہے۔ البتہ مجھے جو معجزہ دیا گیا وہ (قرآن کی) وحی ہے جو اللہ تعالٰی نے مجھ پر نازل کی ہے اس لیے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیرو کار دوسرے انبیاء کے پیروکاروں سے زیادہ ہوں گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4981]
حدیث حاشیہ: 1۔
اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے دور کے مطابق معجزہ عطا کیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں سحر اور جادو کا بہت چرچا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسا معجزہ عطا کیا کہ اس زمانے کے جادو گرشکست کھاگئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب کا بہت رواج تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسے معجزات عطا فرمائے کہ اس وقت کے بڑے بڑے طبیب دم بخود ہوگئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قوت گویائی اورفصاحت و بلاغت کی بہت شرم تھی کہ عرب لوگ دوسروں کو عجمی، یعنی گونگا کہتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن کریم عطا کیا گیا جس کی فصاحت و بلاغت نے بڑے بڑے ادباء اورفصحاء کو خاموش کر دیا اور انھوں نے اس کا لوہا مان لیا۔
وہ قرآن مجید کی چھوٹی سی سورت کی مثال پیش کرنے سے عاجز آ گئے۔
2۔
حدیث کامطلب یہ ہے کہ دوسرے انبیائے کرام علیہ السلام کو ایسے معجزات ملے جنھیں دیکھ کر لوگ ایمان لاتے اور بعد والوں پر ان کا کوئی اثر نہ رہتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن ہر زمانے اور ہر وقت کے لیے تازہ ہے، اس بنا پر قیامت تک لوگ اس میں غور و فکر کرتے رہیں گے اور ایمان سے بہرہ ورہوتے رہیں گے۔
بہرحال قرآن کریم ایک ایسا معجزہ ہے کہ بار بار چیلنج کرنے کے باوجود اس کامقابلہ نہیں کیا جاسکا۔
کوئی بھی اس کی مثل یا اس جیسی دس سورتیں یا اس جیسی ایک سورت یا اس جیسی ایک ہی آیت پیش نہیں کرسکا۔
3۔
قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے مختلف پہلو ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
عمدہ کلام اور فصاحت و بلاغت کا عظیم شاہکار جس کی نظیر لانے سے تمام مخلوق عاجز ہے۔
۔
ایسے بدیع نظم اورعجیب اسلوب پر مشتمل ہے جوعربوں کے اسالیب اور نظم سے مختلف ہے۔
۔
اس کاقانون ایسا ہمہ گیر اور مکمل ہے جو ہر انسان کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
۔
ماضی اور مستقبل کی ایسی خبریں اور پیش گوئیاں دیتا ہے جو وحی کے بغیر معلوم ہی نہیں ہوسکتیں۔
۔
وعدے اور وعید کے متعلق اس نے جوخبر دی ہے وہ ضرور پوری ہوکر رہے گی۔
۔
قرآن ہر قسم کی کمی و بیشی اور تغیر و تبدیل سے محفوظ ہے۔
۔
اس کا یاد کرنا اور اس کا سمجھنا انتہائی آسان اور ہر ایک کے لیے ممکن ہے۔
۔
قرآن اپنوں اور بے گانوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے اور ان کے کانوں میں رس گھولتا ہے۔
۔
ایسا کلام ہے جس سے پڑھنے والا کبھی سیر نہیں ہوتا اور نہ سننے والا اس سے اکتاتا ہے۔
۔
ایسا دستور العمل ہے کہ بکریوں کے چرواہوں کو اس نے امت کا قائد بنا دیا۔