وقول الله تعالى: واجعلنا للمتقين إماما سورة الفرقان آية 74 قال ايمة نقتدي بمن قبلنا ويقتدي بنا من بعدنا وقال ابن عون ثلاث احبهن لنفسي ولإخواني هذه السنة ان يتعلموها ويسالوا عنها والقرآن ان يتفهموه ويسالوا عنه ويدعوا الناس إلا من خيروَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا سورة الفرقان آية 74 قَالَ أَيِمَّةً نَقْتَدِي بِمَنْ قَبْلَنَا وَيَقْتَدِي بِنَا مَنْ بَعْدَنَا وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ ثَلَاثٌ أُحِبُّهُنَّ لِنَفْسِي وَلِإِخْوَانِي هَذِهِ السُّنَّةُ أَنْ يَتَعَلَّمُوهَا وَيَسْأَلُوا عَنْهَا وَالْقُرْآنُ أَنْ يَتَفَهَّمُوهُ وَيَسْأَلُوا عَنْهُ وَيَدَعُوا النَّاسَ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفرقان میں) فرمانا «واجعلنا للمتقين إماما» کہ ”اے پروردگار! ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے۔“ مجاہد نے کہا یعنی امام بنا دے کہ ہم لوگ اگلے لوگوں صحابہ اور تابعین کی پیروی کریں اور ہمارے بعد جو لوگ آئیں وہ ہماری پیروی کریں اور عبداللہ بن عون نے کہا تین باتیں ایسی ہیں جن کو میں خاص اپنے لیے اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے پسند کرتا ہوں، ایک تو علم حدیث، مسلمانوں کو اسے ضرور حاصل کرنا چاہئے۔ دوسرے قرآن مجید، اسے سمجھ کر پڑھیں اور لوگوں سے قرآن کے مطالب کی تحقیق کرتے رہیں۔ تیسرے یہ کہ مسلمانوں کا ذکر ہمیشہ خیر و بھلائی کے ساتھ کیا کریں، کسی کی برائی کا ذکر نہ کریں۔
(موقوف) حدثنا عمرو بن عباس، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن واصل، عن ابي وائل، قال: جلست إلى شيبة في هذا المسجد قال: جلس إلي عمر في مجلسك هذا، فقال:" لقد هممت ان لا ادع فيها صفراء ولا بيضاء، إلا قسمتها بين المسلمين، قلت: ما انت بفاعل، قال: لم قلت لم يفعله صاحباك؟ قال: هما المرءان يقتدى بهما".(موقوف) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى شَيْبَةَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ قَالَ: جَلَسَ إِلَيَّ عُمَرُ فِي مَجْلِسِكَ هَذَا، فَقَالَ:" لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أَدَعَ فِيهَا صَفْرَاءَ وَلَا بَيْضَاءَ، إِلَّا قَسَمْتُهَا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، قُلْتُ: مَا أَنْتَ بِفَاعِل، قَالَ: لِمَ قُلْتُ لَمْ يَفْعَلْهُ صَاحِبَاكَ؟ قَالَ: هُمَا الْمَرْءَانِ يُقْتَدَى بِهِمَا".
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، ان سے واصل نے، ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ اس مسجد (خانہ کعبہ) میں، میں شیبہ بن عثمان حجبی (جو کعبہ کے کلیدبردار تھے) کے پاس بیٹھا تو انہوں نے کہا کہ جہاں تم بیٹھے ہو، وہیں عمر رضی اللہ عنہ بھی میرے پاس بیٹھے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ میرا ارادہ ہے کہ کعبہ میں کسی طرح کا سونا چاندی نہ چھوڑوں اور سب مسلمانوں میں تقسیم کر دوں جو نذر اللہ کعبہ میں جمع ہے۔ میں نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ کہاں کیوں؟ میں نے کہا کہ آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ وہ دونوں بزرگ ایسے ہی تھے جن کی اقتداء کرنی ہی چاہیے۔
Narrated Abu Wail: I sat with Shaiba in this Mosque (Al-Masjid-Al-Haram), and he said, "`Umar once sat beside me here as you are now sitting, and said, 'I feel like distributing all the gold and silver that are in it (i.e., the Ka`ba) among the Muslims'. I said, 'You cannot do that.' `Umar said, 'Why?' I said, 'Your two (previous) companions (the Prophet and Abu Bakr) did not do it. `Umar said, 'They are the two persons whom one must follow.'" (See Hadith No. 664, Vol. 2)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 380
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7275
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ثیبہ بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبے کے اندر دروازے کے پاس کرسی پر بیٹھے تھے تو وہیں ان کے پاس ابووائل شقیق بن سلمہ آکر بیٹھ گئے، پھر بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو آخر میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں ان دونوں بزرگوں کی اقتدا کرتا ہوں۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1594) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اور ترک دونوں کی پیروی ضروری ہے۔ 2۔ جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعبے کا سونا چاندی مسلمانوں کے مصالح میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا تو دربان کعبہ حضرت ثیبہ بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حوالہ دیا کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی مخالفت کرنے کی گنجائش نہ رہی، گویا ان کے نزدیک ان بزرگوں کی اقتدا واجب تھی کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ بیت اللہ کی دیواریں زمین بوس ہو جائیں یا ان کی ترمیم کی ضرورت پڑے تو یہ مال اس ضرورت کے لیے خرچ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اسے مسلمانوں کی ضرور بات پر خرچ کر دیا جائے تومعین مال اس ضرورت پر خرچ نہیں ہوسکے گا جس کے لیے اسے رکھا گیا ہے، اس لیے کہ لوگوں کی ضروریات اور مصالح پر کعبے کا مال خرچ کرنا جائز نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7275