ہم سے اصبغ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن وہب نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابوسلمہ نے اور انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ نے جب بھی کوئی نبی بھیجا یا کسی کو خلیفہ بنایا تو اس کے ساتھ دو رفیق تھے ایک تو انہیں نیکی کے لیے کہتا اور اس پر ابھارتا اور دوسرا انہیں برائی کے لیے کہتا اور اس پر ابھارتا۔ پس معصوم وہ ہے جسے اللہ بچائے رکھے۔“ اور سلیمان بن بلال نے اس حدیث کو یحییٰ بن سعید انصاری سے روایت کیا، کہا مجھ کو ابن شہاب نے خبر دی (اس کو اسماعیلی نے وصل کیا) اور ابن ابی عتیق اور موسیٰ بن عقبہ سے بھی، ان دونوں نے ابن شہاب سے یہی حدیث (اس کو بیہقی نے وصل کیا) اور شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے یوں روایت کی، مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ان کا قول (یعنی حدیث کوث موقوفاً نقل کیا) اور امام اوزاعی اور معاویہ بن سلام نے کہا، مجھ سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی حسین اور سعید بن زیاد نے اس کو ابوسلمہ سے روایت کیا ‘، انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے موقوفاً (یعنی ابوسعید کا قول) اور عبداللہ بن ابی جعفر نے کہا، مجھ سے صفوان بن سلیم نے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ سے، انہوں نے ابوایوب سے، کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: The Prophet said, "Allah never sends a prophet or gives the Caliphate to a Caliph but that he (the prophet or the Caliph) has two groups of advisors: A group advising him to do good and exhorts him to do it, and the other group advising him to do evil and exhorts him to do it. But the protected person (against such evil advisors) is the one protected by Allah.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 306
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7198
حدیث حاشیہ: اس کو امام نسائی نے وصل کیا۔ حدیث مذکور کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو بھی شیطان بہکانا چاہتا ہے مگر وہ اس کے دام میں نہیں آتے کیوںنکہ اللہ تعالیٰ ان کو معصوم رکھنا چاہتا ہے۔ باقی دوسرے خلیفے اور بادشاہ کبھی بد کار مشیر کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور برے کام کرنے لگتے ہیں۔ بعضوں نے کہا نیک رفیق سے فرشتہ اور برے رفیق سے شیطان مراد ہے۔ بعضوں نے کہا نفس امارہ اور نفس مطمنہ مراد ہیں۔ اوزاعی کی روایت کو امام احمد نے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام نسائی نے وصل کیا۔ ان دونوں نے راوی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو قرار دیا اور اوپر کی روایتوں میں ابوسعید تھے اور عبد اللہ بن ابی حسین اور سعید کی روایتوں کو معلوم نہیں کس نے وصل کیا۔ سند میں تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ اس حدیث میں ابو سلمہ پر راویوں کا اختلاف ہے۔ کوئی کہتا ہے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ کوئی کہتا ہے ابو سعید سے، کوئی کہتا ہے ابو ایوب سے‘ کوئی ابو سعید سے موقوفاً نقل کرتا ہے کوئی مرفوعاً۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7198
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7198
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کو بھی شیاطین راہ راست سے دور رکھنے کی کوشش کرتے تھےمگر یہ حضرات ان کے دھوکے اور فریب میں نہیں آتے تھے اللہ تعالیٰ انھیں اس کی چالوں سے محفوظ رکھتا ہے البتہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے ملوک و سلاطین کو شیطان گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور وہ اس کے بہکاوے میں آکر برے کاموں میں دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ ”میرے ساتھ بھی شیطان لگا ہوا ہے میرا شیطان مسلمان ہو چکا ہے اور مجھے اچھے کام کا مشورہ دیتا ہے۔ “(صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 7108(2814) 2۔ حاکم وقت کو چاہیے کہ باوثوق قابل اعتبار، سمجھ دار، ذہین اور زیرک مشیر رکھے تاکہ امور مملکت چلانے میں دشواری اور مشکل نہ ہو۔ حکومت کے حالات اس وقت خراب ہوتے ہیں جب اس کے معاملات برے مشیروں کے حوالے ہو جاتے ہیں جو حاکم وقت کو غلط مشورے دیتے ہیں۔ (فتح الباري: 235/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7198