صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: زبردستی کام کرانے کے بیان میں
The Book of Al-Ikrah (Coercion)
2. بَابٌ في بَيْعِ الْمُكْرَهِ وَنَحْوِهِ فِي الْحَقِّ وَغَيْرِهِ:
2. باب: جس کے ساتھ زبردستی کی جائے یا اسی طرح کسی شخص کا بیچنا حق وغیرہ کو مجبوری سے کوئی بیچ کھوچ کا یا اور معاملہ کرے۔
(2) Chapter. Selling (one’s property) under coercion or other circumstances to repay a debt or the like.
حدیث نمبر: 6944
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد المقبري، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: بينما نحن في المسجد، إذ خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" انطلقوا إلى يهود، فخرجنا معه حتى جئنا بيت المدراس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فناداهم: يا معشر يهود اسلموا تسلموا، فقالوا: قد بلغت يا ابا القاسم، فقال: ذلك اريد، ثم قالها الثانية، فقالوا: قد بلغت يا ابا القاسم، ثم قال: الثالثة، فقال: اعلموا ان الارض لله ورسوله، وإني اريد ان اجليكم، فمن وجد منكم بماله شيئا فليبعه، وإلا فاعلموا انما الارض لله ورسوله".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ الْمِدْرَاسِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَاهُمْ: يَا مَعْشَرَ يَهُودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ: ذَلِكَ أُرِيدُ، ثُمَّ قَالَهَا الثَّانِيَةَ، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، ثُمَّ قَالَ: الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: اعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم مسجد میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اور جب ہم بیت المدراس کے پاس پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی اے قوم یہود! اسلام لاؤ تم محفوظ ہو جاؤ گے۔ یہودیوں نے کہا: ابوالقاسم! آپ نے پہنچا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا بھی یہی مقصد ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا اور یہودیوں نے کہا کہ ابوالقاسم آپ نے پہنچا دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی فرمایا۔ اور پھر فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں تمہیں جلا وطن کرتا ہوں۔ پس تم میں سے جس کے پاس مال ہو اسے چاہئے کہ جلا وطن ہونے سے پہلے اسے بیچ دے ورنہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: While we were in the mosque, Allah's Apostle came out to us and said, "Let us proceed to the Jews." So we went along with him till we reached Bait-al-Midras (a place where the Torah used to be recited and all the Jews of the town used to gather). The Prophet stood up and addressed them, "O Assembly of Jews! Embrace Islam and you will be safe!" The Jews replied, "O Aba-l-Qasim! You have conveyed Allah's message to us." The Prophet said, "That is what I want (from you)." He repeated his first statement for the second time, and they said, "You have conveyed Allah's message, O Aba-l- Qasim." Then he said it for the third time and added, "You should Know that the earth belongs to Allah and His Apostle, and I want to exile you fro,,, this land, so whoever among you owns some property, can sell it, otherwise you should know that the Earth belongs to Allah and His Apostle." (See Hadith No. 392, Vol. 4)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 85, Number 77


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6944عبد الرحمن بن صخرأسلموا تسلموا فقالوا قد بلغت يا أبا القاسم فقال ذلك أريد ثم قالها الثانية فقالوا قد بلغت يا أبا القاسم ثم قال الثالثة فقال اعلموا أن الأرض لله ورسوله
   صحيح مسلم4591عبد الرحمن بن صخرأسلموا تسلموا فقالوا قد بلغت يا أبا القاسم فقال لهم رسول الله ذلك أريد أسلموا تسلموا فقالوا قد بلغت يا أبا القاسم فقال لهم رسول الله
   سنن أبي داود3003عبد الرحمن بن صخرأسلموا تسلموا فقالوا قد بلغت يا أبا القاسم فقال لهم رسول الله أسلموا تسلموا فقالوا قد بلغت يا أبا القاسم فقال رسول الله صلى الله عليه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6944 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6944  
حدیث حاشیہ:
یہود مدینہ کی روز روز کی شرارتوں کی بناء پر آپ نے ان کو یہ اعلان دیا تھا۔
وہ اس وقت حربی کافر تھے۔
آپ نے ان کو اپنے اموال بیچنے کا اختیار دیا ایسی صورت میں بیع کا جوازثابت ہوتا ہے۔
باب سے یہی مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6944   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6944  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6944 کا باب: «بَابٌ في بَيْعِ الْمُكْرَهِ وَنَحْوِهِ فِي الْحَقِّ وَغَيْرِهِ:»
باب اورحدیث میں مناسبت:
علامہ خطابی رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب اور حدیث پر اعتراض وارد کیا ہے کہ ان دونوں میں مناسبت موجود نہیں ہے۔ چنانچہ آپ راقم ہیں:
«استدل أبوعبدالله يعني البخاري بحديث أبى هريرة يعني المذكور فى الباب على جواز بيع المكره والحديث ببيع المضطر أشبه.» [فتح الباري لابن حجر: 272/13]

یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیع المکرہ کے جواز پر استدلال فرمایا ہے جب کہ یہ حدیث بیع مضطر کے ساتھ اشبہ ہے، کیوں کہ بیع پر مکرو ہی کسی شئی کا بیع کا حامل ہے اس کی رضا ہو یا نہ ہو۔
یہی اعتراض علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری میں نقل فرمایا ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان اعتراضات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے جوابات بھی مہیا کیے ہیں، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے مضطر کی بیع جائز رکھی ہے، اسی لیے آپ نے باب سے اس کا جواز نکالا ہے، مضطر سے مراد وہ شخص ہے جو مفلس ہو کر اپنا مال بیچے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تبصرہ کرتے ہیں:
«قلت لم يقتصر البخاري فى الترجمة على المكره و إنما قال: بيع المكره و نحوه فى الحق فدخل فى ترجمته المضطر، وكأنه أشار إلى الرد على من لا يصح بيع المضطر، و قوله فى آخر كلامه.» [فتح الباري لابن حجر: 272/13]
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں مکرہ پر اقتصار نہیں کیا، صرف یہ کہا: «بيع المكره ونحوه فى الحق» تو اس میں مضطر بھی داخل ہے، گویا ان حضرات کے رد کا اشارہ دیا ہے جو مضطر کی بیع کی صحت کے قائل نہیں ہیں، خطابی رحمہ اللہ کا آخر میں کہنا ہے کہ اگر اس پر مجبور کیا گیا تو یہ جائز نہیں مردود ہے، کیوں کہ یہ حق کے ساتھ اکراہ ہے، علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے بھی ان کا تعاقب کیا ہے۔
ان تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں، بیع مکرہ اور بیع مضطر، ترجمۃ الباب کا تعلق دوسرے جزء یعنی بیع مضطر سے ہے لہٰذا مضطر سے مراد یہاں یہ ہے کہ مجبور ہو کر اپنا مال بیچے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو ان کا مال بیچنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ ترجمۃ الباب اور حدیث کے بیان سے واضح ہے، اور جہاں تک پہلے جزء کا تعلق ہے تو اس کے لیے متن حدیث سے استدلال کو اخذ فرمایا ہے، کیوں کہ بیع المکرہ میں مضطر بالاولی داخل ہو گا، یہی بات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کی ہے۔ «والله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 261   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6944  
حدیث حاشیہ:

یہودی لوگ اپنے مال وغیرہ میں بہت بخیل ثابت ہوئے تھے جب انھیں جلاوطن ہونے کی دھمکی دی گئی تو انھوں نے اپنی جائیداد فروخت کرنے میں عافیت سمجھی۔
اگرچہ وہ انھیں بیچنا نہیں چاہتے تھے لیکن اس وقت وہ مجبور تھے۔

اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مجبور شخص کی بیع کے جواز پر استدلال کیا ہے اور یہ حدیث مجبور کی بیع میں بہت واضح ہے کیونکہ مجبور وہ شخص ہے جسے اپنی مملوکہ اشیاء فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے، حالانکہ وہ انھیں بیچنا نہیں چاہتا۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی چیزیں فروخت کرنے کا اختیار دیا تھا، اس اختیار سے انھوں نے فائدہ اٹھانا مناسب خیال کیا۔
ایسی صورت میں مکرہ (مجبور)
کی بیع کا جواز ثابت ہوا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6944   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3003  
´مدینہ سے یہود کیسے نکالے گئے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم مسجد میں تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف تشریف لے آئے اور فرمانے لگے: یہود کی طرف چلو، تو ہم سب آپ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ یہود کے پاس پہنچ گئے، پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور انہیں پکار کر کہا: اے یہود کی جماعت! اسلام لے آؤ تو (دنیا و آخرت کی بلاؤں و مصیبتوں سے) محفوظ ہو جاؤ گے، تو انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پھر یہی فرمایا: «أسلموا تسلموا» انہوں نے پھر کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، تو ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3003]
فوائد ومسائل:

رسول اللہ ﷺ نے یہود کی ریشہ دوانیاں ظاہر اور ثابت ہونے کے بعد جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ فرمایا۔
کسی سزا کے اعلان سے پہلے انہیں اسلام لانے کی دعوت دی۔
پھر جلا وطنی کی سزا سے پہلےان کو بتا دیا گیا کہ وہ اپنی جایئدادیں وغیرہ فروخت کرلیں۔
عنقریب سزا نافذ ہوجائے گی۔
گویا آپ کی پوری کوشش تھی کہ یہودکی زیادتیوں کے باوجود مسلمانوں کی طرف سے ان پرکوئی زیادتی نہ ہو۔
اسلام قبول کر لینے میں ہی سلامتی ہے۔
یعنی اسلام قبول کرنے سے ٖغداری جیسے جرم کی پر بھی سزا ختم ہوجاتی ہے۔
اس دنیا میں جان ومال اورآبرو کی اور آخرت میں اللہ کی پکڑ اور عذاب جہنم سے سلامتی ہے۔


زمین اللہ کی ہے کا مفہوم یہ ہے کہ زمین اسی نے پیدا کی ہے۔
اس کا نافذ کرد ہ قانون فطرت نافذ ہے۔
اس کا حقیقی مالک وہی ہے اور اللہ کے رسولﷺ اللہ کی طرف سے خلیفہ ہیں۔
کہ اس میں اس کی شریعت نافذ کریں۔


شرعی حق کے نفاذ کی غرض سے کس کو اپنا مال فروخت کرنے پر آمادہ کرنا جائز اور اس کی خرید وفروخت صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3003   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4591  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں تھے کہ اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: یہودیوں کی طرف چلو۔ تو ہم آپ کے ساتھ چل پڑے حتی کہ ان کے پاس پہنچ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر ان سے بلند آواز سے فرمایا: اے یہودیوں کی جماعت! اسلام لے آؤ! سلامت رہو گے۔ انہوں نے جواب دیا، اے ابو القاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: یہی میں چاہتا ہوں، اسلام لے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4591]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
قَدبَلَّغتَ:
آپ کا کام پیغام پہنچانا اور اسلام کی دعوت دینا ہے،
وہ آپ نے دے دی ہے،
ماننا یا نہ ماننا ہمارا کام ہے۔
(2)
ذَالِكَ أُرِيدُ:
میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم اس کا اعتراف کر لو کہ تم تک پیغام پہنچ گیا ہے۔
فوائد ومسائل:
جنگ بنو قریظہ تک جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے اور مدینہ آنے سے پہلے کا واقعہ ہے،
تمام یہودی قبائل،
بنو قینقاع،
بنو نضیر اور بنو قریظہ کو ان کی عہد شکنی کی بنا پر مدینہ سے نکالا جا چکا تھا،
لیکن ان کے بعض چھوٹے خاندان پیچھے رہ گئے،
جو تعلیم و تعلم میں مشغول تھے،
اب آپﷺ نے ان کو بھی مدینہ سے نکالنا چاہا تو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دی اور ان کے انکار پر کہا،
اب تمہارے یہاں سے نکالنے کا وقت آ گیا،
لہذا اپنا مال،
اسباب بیچ کر یہاں کی زمین خالی کر دو اور یہاں سے چلے جاؤ۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4591   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.