ولا تكرهوا فتياتكم على البغاء إن اردن تحصنا لتبتغوا عرض الحياة الدنيا ومن يكرههن فإن الله من بعد إكراههن غفور رحيم سورة النور آية 33.وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 33.
(اور اللہ نے سورۃ النور میں فرمایا)”تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں تاکہ تم اس کے ذریعہ دنیا کی زندگی کا سامان جمع کرو اور جو کوئی ان پر جبر کرے گا تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخشنے والا مہربان ہے۔“
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن القاسم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے یزید بن حارثہ انصاری کے دو صاحبزادوں عبدالرحمٰن اور مجمع نے اور ان سے خنساء بنت خذام انصاریہ نے کہ ان کے والد نے ان کی شادی کر دی ان کی ایک شادی اس سے پہلے ہو چکی تھی (اور اب بیوہ تھیں) اس نکاح کو انہوں نے ناپسند کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر (اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر دی) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو فسخ کر دیا۔
Narrated Khansa' bint Khidam Al-Ansariya: That her father gave her in marriage when she was a matron and she disliked that marriage. So she came and (complained) to the Prophets and he declared that marriage invalid. (See Hadith No. 69, Vol. 7)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 85, Number 78
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6945
حدیث حاشیہ: امام بخاری نے اس سے یہ دلیل لی کہ مکرہ کا نکاح صحیح نہیں۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ ان کا نکاح صحیح ہوا ہی نہ تھا کیوں کہ وہ ثیبہ بالغہ تھیں ان کی اجازت اور رضا بھی ضروری تھی ہم کہتے ہیں کہ حدیث میں فرد نکاحها ہے اگر نکاح صحیح ہی نہ ہوتا تو آپ فرما دیتے کہ نکاح ہی نہیں ہوا اور حدیث میں یوں ہوتا فأبطل نکاحها اور حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے جبر سے ایک عورت سے نکاح کیا دس ہزار درہم مقرر کر کے اس کا مہر مثل ایک ہزار تھا تو ایک ہزار لازم ہوں گے نوہزار باطل ہو جائیں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ اکراہ کی وجہ سے جیسے مہر کی زیادتی باطل کہتے ہو ویسے ہی اصل نکاح کو بھی باطل کرو۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6945
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6945
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر دوسری جگہ ان الفاظ کے ساتھ عنوان قائم کیا ہے: (باب إِذَا زَوَّجَ ابْنَتَهُ وَهِيَ كَارِهَةٌ فَنِكَاحُهُ مَرْدُودٌ) ”جب کوئی اپنی بیٹی پر جبر کرتے ہوئے اس کا نکاح کسی دوسرے سے کر دے تو اس کا نکاح مردود ہے۔ “(صحیح البخاري، النکاح، باب 43) ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضرت جعفر کی اولاد میں سے ایک لڑکی کو خطرہ تھا کہ اس کا سرپرست زبردستی کسی سے اس کا نکاح کر دے گا تو اس نے انصار کے دو شیوخ حضرت عبدالرحمان اور مجمع سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو انھوں نے تسلی دی کہ تجھے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، پھر انھوں نے اس حدیث کا حوالہ دیا۔ (صحیح البخاري الحیل، حدیث 6969) ۔ 2۔ بہرحال اگرسرپرست زبردستی نکاح کرتا ہے تو ایسا نکاح مسترد ہوگا۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6945
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3270
´باپ بیوہ کی شادی اس کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دے تو کیا حکم ہے؟` خنساء بنت خذام رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا اور یہ بیوہ تھیں، یہ شادی انہیں پسند نہ آئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، تو آپ نے ان کا نکاح رد کر دیا۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3270]
اردو حاشہ: اس دور میں یقینا یہ بات حیرت انگیز تھی کہ باپ کی کیا ہوا نکاح بیٹی کو پسند نہ ہونے کی وجہ سے رد کردیا گیا۔ یہ اسلام کا عظیم کارنامہ تھا، نیز شریعت اسلامیہ میں یہ مسئلہ متفق علیہ ہے، بشرطیکہ وہ بالغہ ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3270